چترال میں مہنگائی اور لکڑی لانے پر بے جا تنگی کرنے پر محکمہ جنگلات کے خلاف احتجاجی جلسہ

چترال(زیل نمائندہ)جماعت اسلامی چترال کے سینکڑوں کارکنوں نے ملک میں کمر توڑ مہنگائی اور محکمہ جنگلات کی غلط پالیسیوں کے حلاف اتالیق چوک میں جلسہ کیا۔ جلسے کی صدارت ضلعی امیر اخونزادہ رحمت اللہ کررہے تھے۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ موجودہ حکومت میں ہوشرباء مہنگائی کی وجہ سے غریب آدمی کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ انہوں نے محکمہ جنگلات کے عملہ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ان کی نا اہلی کی وجہ سے ارندو وغیرہ کے جنگلات میں 18لاکھ فٹ سے زیادہ غیر قانونی لکڑی کی کٹائی ہوچکی ہے جس کو صوبائی حکومت Illicit Timber پالیسی کے تحت چکدرہ لے جاکر فروخت کرنا چاہتے ہیں جو چترالی قوم کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے جبکہ پورے چترال کو آبادی کیلئے ڈیڑھ لاکھ فٹ لکڑی کی ضرورت ہے اگر حکومت اس غیر قانونی طور پر کٹ شدہ لکڑی کو چترال کے لوگوں میں مناسب نرح اور پرمٹ کے حساب سے تقسیم کرے تو چترال کے لوگوں کو آئند ہ بیس سالوں تک لکڑی کاٹنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جس سے ایک طرف مقامی لوگوں کی ضرورت پورا ہوگی تو دوسری طرف جنگل بھی بچے اور لوگ چوری چپے جنگل کی لکڑی کاٹنے پر مجبور نہیں ہوں گے

جلسہ میں ڈویژنل فارسٹ آفیسر محکمہ جنگلات پر بھی کڑی تنقید کی گئی جس کے حکم پر گزشتہ روز چترال لانے والے ایک گاڑی کو پکڑ ا جس میں پچاس سال پرانا گلا سڑا لکڑی لایا جارہا تھا۔ مقررین نے DFO چترال کو فوری طور پر یہاں سے ٹرانسفر کرنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے محکمہ جنگلات کے عملہ پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ لاکھوں فٹ لکڑی محکمہ جنگلات کی آشیر باد کے بغیر کوئی بھی غیر قانونی طور پر نہیں کاٹ سکتا البتہ ان ٹمبر مافیا کے ساتھ محکمہ جنگلات کا عملہ بھی ملی بگھت کرکے ان کو کاٹتے ہیں جس تباہی کا باعث بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چترال کے جنگلات میں پچاس سالوں سے ملبہ پڑا ہے جس مین محتلف لکڑی اور شاحیں موجود ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف چترال کے جنگلات میں کئی مرتبہ آگ بھی بھڑک اٹھا اور کروڑوں روپے کا قیمتی عمارتی لکڑی جل گیا جبکہ دوسری طرف یہ لاکھوں ٹن لکڑیوں کا ملبہ سیلاب کی صورت میں بہہ کر دریا برد ہوکر افغانستان جاتا ہے جس سے وہاں کے لوگ ارب پتی بن گئے مگر ہم لوگوں کو محکمہ جنگلات محروم رکھتے ہیں۔ مولانا جمشید نے الزام لگایا کہ موجودہ ڈی ایف او سزا یافتہ ہے اور اسے سزا کے طور پر چترال بھیجا گیا ہے اب وہ ایسے حربے استعمال کرتا ہے کہ لوگ اس کے حلاف جلسہ جلوس کرکے اسے واپس چترال سے باہر ٹرانسفر کیا جائے۔

مقررین نے کہا کہ چترال کے محتلف محکموں میں درجہ چہارم کے حالی آسامیوں پر بھی غیر مقامی لوگوں کو سفارش کے بنیاد پر بھرتی کئے ہیں جس کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں۔

مقامی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے لکڑی کے کاروبار کے ایسوسی ایشن کے صدر شیر مراد نے کہا کہ چترال کے جنگلوں میں کروڑوں ٹن ملبہ پڑا ہے جو صدیوں پرانے خشک لکڑی جو گرے ہوئے ہیں وہ گل سڑھ رہے ہیں اور اس کے علاوہ ان لکڑیوں کی وجہ سے چترال کے ارندو، دومیل، چمرکن اور چترال گول نیشنل پارک کے جنگلات میں آگ لگنے سے اربوں روپے کا نقصان ہوا جس میں ایک فارسٹر شہید بھی ہوا دوسرے کا ہاتھ جل گیا اور جنگلوں میں پڑا ہوا اس ملبے کی وجہ سے گرین پاکستان میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ اگر اس ملبہ کو ہٹایا جائے تو اس کے نیچے پڑے ہوئے بیج میں سے مزید پودے نکلیں گے مگر ڈویژنل فارسٹ آفیسر چترال اس میں بڑا رکاوٹ ہے۔

رحمت علی شاہ کا تعلق بھی اس ایسوسی ایشن سے ہے انہوں نے کہا کہ ارندو کے جنگل میں اٹھارہ لاکھ فٹ سے زیادہ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹے گئے ہیں جسے محکمہ جنگلات چکدرہ لے جاکر فروخت کرنا چاہتا ہے جس سے مقامی لوگوں کی حق تلفی ہوتا ہے۔ لہذا وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلےٰ محمود خان اس پالیسی پر نظر ثانی کرے اور ان لکڑیوں کو چترال کے لوگوں میں پرمٹ کے ذریعے تقسیم کرے۔

ناصر الملک نے ایک گاڑی میں لانے والے گلے سڑے اور کافی پرانے لکڑیوں کی طرف نشاندہی کراتے ہوئے کہا کہ یہ تو محکمہ جنگلات کے عملہ کی ذمہ داری ہے کہ جنگلوں سے اس ملبہ کو نکالا جائے تاکہ آگ لگنے کا حطرہ بھی ٹل جائے اور مزید درخت بھی اگے جبکہ سیلاب کی صورت میں یہ لکڑی دریا میں بہہ کر افغانستان پہنچ جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ چترال کے محتلف جنگلوں سے یہ صدیوں پرانا ملبہ ہٹایا جائے تاکہ آگ کا حطرہ کم سے کم کیا جائے اور اس سے مقامی لوگوں کی ضرورت بھی اگلے تیس سالوں تک پورا ہوجائے گا۔

جلسہ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کیا گیا جس کے تحت موجودہ حکومت سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ غریب عوام پر ترس کھاکر ملک میں کمر توڑ مہنگائی کو کم کیا جائے اور لوگوں کو روزگارکے مواقع فراہم کئے جائے۔ چترال میں سردی کی آمد ہے اور لوگوں کو سوختنی لکڑی کی جس قدر ضرورت ہے اس کی بیان کرنا مشکل ہے مگر لکڑی کو ٹالوں میں لکڑی موجود ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام الناس پریشانی میں مبتلا ہیں اور آگے جاکر یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہونے کا حطرہ ہے لہذا ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ افسران سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ سوختنی لکڑی کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے سے پرہیز کیا جائے اور برف باری سے پہلے وافر مقدار میں ان سٹالوں میں سوختنی لکڑی پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔

جلسہ کے دوران گو ڈی ایف او گو کا بھی نعرہ لگایا گیا۔ ہمارے نمائندے نے محکمہ جنگلات کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر سردار فرہاد سے بھی ان کا موقف جاننے کی کوشش کرتے ہوئے ان سے رابطہ کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کے ساتھ ایک ضروری میٹنگ کے سلسلے میں سوات آئے ہوئے ہیں جس کی بدولت ان کا موقف نہیں لیا جاسکا۔جلسہ میں اس گاڑی کو بھی لایا گیا تھا جسے گزشتہ روز محکمہ جنگلات کے عملہ نے پھاٹک میں روکا تھا اس میں ایسے لکڑی موجود تھے جو جل چکے تھے اور زیادہ تر کافی پرانا ہونے کی وجہ سے گل سڑھ چکے تھے۔

جلسہ سے ضلعی امیر اخونزادہ رحمت اللہ، مولانا اسرار الدین الہلال، وجیہ الدین، مولانا جمشید اور دیگر نے بھی اظہار حیال کیا جو بعد میں مولانا اسرار الدین کے دعائیہ کلمات کے ساتھ احتتام پذیر ہوا۔ جلسہ میں کثیر تعداد میں محتلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی جو ملک میں ہوشربا مہنگائی اور محکمہ جنگلات کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سیح پا تھے۔

Print Friendly, PDF & Email