بادشاہی قانوں

مشہور زمانہ فلسفی میکاولی کا قول ہے کہ” قانون حکمران کا حکم ہوتا ہے”. میری رائے میں یہ حکم کچھ سماجی رسم و رواج اور ثقافتی اظہار کے ساتھ عوام پر مسلط کی جاتی ہے اور یوں قانوں انصاف اور برابری کی بجائے مخصوص طبقے کی مفادات کا تحفظ کا آلہ بن جاتا ہے۔ اس سیاق میں یا تو بادشاہ قانون ہوتاہے یا قانون بادشاہ۔ دونوں کی خوشنودی و رضا کے لئے کی جانے والی کوشش کوئی صلح نہیں۔

 مفاہمت کا راگ الاپنے والے یہ رہنما بھی عجیب ہوتے ہیں۔ ان عجیب لوگوں میں پہلے نمبر پر وہ ہیں جو خود غرض ہوتے ہیں اور جو صرف اپنے فائدے کی خاطر اپنے ضمیر اور اپنی انا کو فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اس مفاہمت سے فائدہ ہوتا ہے یا نقصان نہیں ہوتا۔ یہ اُن لوگوں کا فیصلہ کرنے کے کبھی بھی اہل نہیں ہیں جنہوں نے اس طرح کے میل ملاپ اور تصفیہ کی وجہ سے صعوبتیں جھیلی ہوں۔

دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو کمزور ہوتے ہیں۔ جن میں صلاحیت نہیں ہوتی یا جو اپنی صلاحیتوں سے نا آشنا ہیں۔ اِن لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہایت ہی ناقابل اور نا اہل سمجھتے ہیں۔ یہی لوگ دراصل سیاسی ملحد یا سیاسی لادین ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایسے ہی پیدا ہوئے تھے اور ایسے ہی مریں گے۔

پھر آتے ہیں متعصب لوگ: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بس کی بات نہیں اگرچہ اہلیت یا قابلیت ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ان لوگوں کو بادشاہ سے بھی چِڑ ہوتی ہے اور قانون سے بھی، یا پھر یہ ایک سے چِڑ کی وجہ سے دوسرے کی ضد بن جاتے ہیں۔ اِن لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس نہ تو کوئی حل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی متبادل۔

آخر میں وہ لوگ ہیں جو نام نہاد معتدل رویئے کے حامل ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا تین اقسام سے پہلے سب سے زیادہ ہمارے لئے اور ہمارے سیاسی نظام کے لئے نقصان دہ یہ لوگ ہیں۔ ان کی زبانیں گنگ ہوتی ہیں اور سوچ پر قفل ہوتا ہے۔ ان کی قلم بے نوک ہوتی ہے اور یہ محض تماشا بین ہوتے ہیں۔

بادشاہ اور قانون میں ضد دراصل آمریت اور جمہوریت میں ضد ہے۔ ایک آمر چاہے جس بھی طرح کے رنگ میں خود کو رنگے ، وہ جمہوری نہیں کہلا سکتا۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آمریت بادشاہت کے لئے استعمال ہونے والی جدید اصطلاح ہے لیکن پھر بھی جو بات دونوں میں مختلف ہے وہ یہ ہے کہ بادشاہ عوامی رضا پر بنا جاسکتا ہے لیکن آمر صرف عوامی خواہشات کو روند کر بنا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بادشاہت آمریت سے ہزار درجے بہتر ہوتی ہے کیونکہ ایک مطلق العنان بادشاہ عوامی امنگوں کے لئے ایک قدم پیچھے لے سکتا ہے لیکن مطلق العنان آمر اپنے آخری دم تک ظلم ، جبر اور فسطائیت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔

قانون کو بادشاہ بنانے کے لئے جہد کی جانی چاہئے نہ کہ بادشاہ کو قانون بنانے کے لئے۔ دونوں کے درمیان مفاہمت کے لئے سوچنے والوں کو پہلے سینتالیس ، پھر پینسٹھ اور پھر اکہتر توپوں کی سلامی دینی چاہئے۔

Print Friendly, PDF & Email