مستقل صرف تبدیلی ہے

ادب میں کسی فن کی قیمت کا اندازہ اس کی عالمگیریت کی بنا پر زیادہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی فن پارے کی وقعت اور وسعت کا معیار جاننے کیلئے اس کے مختلف پہلوؤں کو دیکھا جاتا ہے جیسا کہ اس کے پیغام میں کتنی حقیقت، کشش اور کتنا اثر ہے نہ صرف یہ بلکہ ساتھ ہی اس کے طرز و اظہار میں کونسی فنی لحاظ، کشش، جاذبیت اور خوبصورتی ہے۔ ان سب سے ہٹ کر کسی ادبی فن پارے کی پہچان میں اس کے مستقل ہونے کی اہمیت یقیناً زیادہ ہے۔ آرٹ یا فن ہمیں دوامی کیفیات اور قدروں سے نوازتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک سچا اور اعلیٰ فن انسان کو اس مادی اور مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی دنیا سے اٹھا کر ایک تخیلاتی اور مستقل دنیا میں پہنچاتا ہے پھر بھلے وہ کچھ لمحوں کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔

یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ فن یا فن پارے کی عمر فنکار یا سخندان کی عمر سے زیادہ ہوتی ہے اور شاید اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی شاعر کے محبوب ہیں تو آپ اَمَر (لافانی) ہیں کیوں کہ آپ اور شاعر نہیں رہیں گے لیکن آپ شاعر کی تخلیق کا حصہ بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

دنیاوی زندگی میں لافانیت اور دوام کی واحد مثال خدائے بزرگ و برتر کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے بہتر عمدہ مثال ہمیں کہیں نہیں مل سکتی۔ تبدیلی قدرت کی طرف سے عطا کردہ فطرت ہے جو ہر جاندار اور بے جان چیز کیلئے ناگزیر ہے۔ سوچ، نظریات، طریقِ رہن سہن، فکر، علم، جذبات، خواہشات، احساسات، مقاصد، کیفیات، بذات خود آرٹ اور یہاں تک کے سائنس، ہر چیز بدلاؤ کا یا بدلاؤ کے مراحل کا شکار ہے۔
ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ جن کے جذبات اور خیالات نہیں بدلتے وہ یا تو بہتری کے عروج پر پہنچ گئے ہیں، یا بالکل ہی شروعات میں ہیں یا پھر یوں کہیں کہ نہ وہ سن سکتے ہے، دیکھ اور جان سکتے ہیں۔ تبدیلی نہ آنا اور بدلاؤ نہ لانا بھی بڑھوتری میں فقدان کی علامتیں ہیں۔ اگر لحد سے محد تک علم حاصل کرنا ہے تو مطلب ذہنی و فکری نشوونما بھی محد تک ہونی چاہئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ علم ملتا جائے، سیکھ ملتی جائے، تجربہ ہوتا جائے اور سوچ، نظریات، افکار، جذبات اور ذہنی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔

منافق وہ نہیں ہوتے جو بدلتے ہیں بلکہ وہ تو فطری مراحل گزر رہے ہوتے ہیں اور تبدیلی کا خیر مقدم کررہے ہوتے ہیں۔ منافق تو وہ لوگ ہیں جو بدلاؤ نہیں چاہتے اور جو ہمیشہ ایک طرف اور ایک طرح ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email