"مجدد العصر” ہمارے مولانا صاحب دامت برکاتہم

کسے خبر تھی کہ مدینہ و نجف، سمرقند و بخارا اور بغداد و دمشق سے کوسوں دُور صدیوں بعد چترال سے ایک مجدد اور مصلح ابھرے گا جو مسلمانانِ ہند کے ڈولتے ڈوبتے اور چھید بھرے سفینے کو کفر کے بھنور اور طوفان سے بچاکر پار لگانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ گو کہ امت کی واماندگی و خستگی میں اس کے آثار اور امکانات مفقود تھے۔ مگر زمانے نے یہ اعجاز ہوتے ہوئے دیکھا 25 جولائی سن 2018 کے الیکشن کے دن چترال کی  سادہ لوح رعایا کو یہ خبر نہ تھی کہ مولانا کے حق میں ڈالے گئے ووٹ سے وہ دراصل امت کی کایا پلٹانے کا سامان کر رہے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے فوراً بعد اس مردِ مجاہد نے چترال میں کام کرنے والے این جی اوز کیخلاف بیانات دیے۔ جلد ہی دنیا نے دیکھا کہ غیر ملکی این جی اوز اپنے بستر گول کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ معاملہ سلجھ گیا تو نگاہِ مردِ مومن ملک میں رائج سودی نظام پر مرکوز ہوئی۔ اسمبلی میں کھڑے ہوکر اس نظام کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ "کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے” جلد ہی معیشت بھی ربا سے پاک ہوگئی۔ اس سے اگلا مرحلہ خاصا دشوار تھا۔ مملکتِ خداداد کی شہ رگ کشمیر جسے قابض ہندوستان سے چھڑانے میں بانیِ پاکستان سمیت ہر سیاستدان اور جرنیل ناکام رہے تھے، اس پربصیرت اور دانا و بینا ہستی کی توجہ کا متقاضی تھا۔ 26 اکتوبر 2019 کی ایک سرد رات کو بزدل دشمن کے لڑاکا طیارے بالاکوٹ میں اندر گھس آئے اور بم گرا کر چلے گئے۔ دوسرے دن قوم کی سہمی ہوئیں نگاہیں ٹی وی کے اسکرینوں پر مرکوز تھیں کہ یہ مردِ مجاہد چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوئے اور فوجی اور سِول حکام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کی پاکستان کے علاقے میں درا اندازی جتنی بتائی جارہی ہے دراصل اس سے کہیں زیادہ تھی۔ "قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔” یہ کہنا تھا کہ ٹی وی پر سے قومی اسمبلی کے براہِ راست نشریات غائب ہوئے اور ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار دیکھایا جانے لگا! مولانا صاحب کو کئی بار ان نازک مسائل پر بات نہ کرنے کا کہا گیا۔ بولتے ہوئے مائیک بند کیا گیا مگر ملت کا یہ جری سپوت کب ہار ماننے والا تھا۔ ایک دن اٹھے اور کشمیر میں جہاد کا اعلان کردیا۔ دوسرے دن دنیا نے دیکھا کہ فرزندانِ توحید کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے لیس لائن آف کنٹرول کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ بے شک ان کے پاس جدید ہتھیار نہیں تھے اور سامنے دشمن اعلیٰ سامانِ حرب سے لیس تھا۔ مگر ان کے دلوں کو مولانا صاحب کیطرف سے جذبہ اور شوقِ کی حرارت بہم پہنچ رہی تھی۔ سرحد پار غنیم نے یہ منظر دیکھا تو پسیج گیا اور ایسا بھاگا کہ دہلی کے لال قلعے میں  جاکر دم لیا۔ دوسرے دن جموں کے جامع مسجد میں حریت رہنماؤں سمیت لاکھوں کشمیریوں نے مولاناصاحب کی امامت میں نماز پڑھی۔ ان تمام امور میں مصروف رہنے کے باوجود مولانا صاحب دعوت و تبلیغ کی ذمہ داریوں سے بھی غافل نہ رہے اور انہیں ہمیشہ اپنی سیاسی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر ترجیح دی۔ مولانا صاحب گاہے بگاہے کسی مسجد میں نومسلموں اور "نومسلموں” کو کلمہ پڑھواتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ قلیل وقت میں کامرانیوں کی اتنی طویل داستان پورے شرق و غرب میں شاید ہی کسی کی نصیب میں آئی ہو۔ فتح کشمیر اور معیشت سے سودی نظام ختم کرکے اسے شرعی خطوط پر استوار کرنا مولانا صاحب کے چند ایسے کارنامے ہیں جن کی بنا پر اسے اس صدی کا مجدد کہنا بے جا ہوگا۔ اہالیانِ چترال سے میری درخواست ہے کہ مولانا صاحب جب جہادِ کشمیر سے لوٹے تو لواری ٹاپ پر استقبال شایانِ شان طریقے سے کریں اور ان کے حضور سپاس نامہ پیش کرکے لگے ہاتھوں جہادِ فلسطین کی بھی اجازت حاصل کریں (اسکے ساتھ بونی روڈ کی مرمت کی درخواست بھی نتھی ہو تو کیا ہی بات ہے!)۔ میں مولانا صاحب کی کامرانیوں کیلئے تہہ دل سے دعاگو ہوں۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email