کیا سچ ایک بے راستہ سر زمین ہے ؟

انسان اور کائنات کے بیج ایک ثقافتی نظام کارفرما ہوتا ہیں ہر چند کہ یہ نظام شروغ سے اب تک کی لکھی گئی متن سے عبارت ہے یا پھر وہ جو کہا گیا اور سنا گیا، شاید اس وجہ سے جون ایلیاء نے کہا تھا کہ“ سب اپنے کانوں کو بند رکھیں کیونکہ گناہ کانوں کے رستے روح میں در آتے ہے“۔

زرا غور کرنے پر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہے کہ زندگی فطری ہے اور عقل تہذیب کا وظیفہ ہیں۔ انسانوں کی یہ مجموعی ثقافت جس کو انسانی تہذیب سے تعبیر کرنا بے جا نہ ہوگا ایک پیٹرن ہے جس کو بنی نوع انسان کچھ الجھنوں اور امیدوں کے ساتھ گلے لگائے حیات کا خیر مقدم کرتی ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانوں کی زندگی کو آرگنائز کرنے کی یہ کاوش بہت پرانی ہے۔ اس سیاق میں ایک سماجی ضابطہ مذہب ہے اور مذہب نے انسانوں کو بہت کچھ دیا لیکن بدلے میں بہت کچھ لیا بھی۔ جیسا کہ علامہ نیاز فتح پوری اپنی کتاب “مذہب“ میں لکھتے ہیں کہ

“مذبب خود کوئی حقیقت نہیں ہےاور نہ ہی کوئ مطلق سچ۔ بلکہ ایک کیفیت و عرض ہے جو انسان پر اس کی دماغی تربیت، تمدنی ماحول، اور نظام اجتماعی کے تحت لاحق اور طاری ہوتی ہے اس لیئے اگر کوئی مذہب یہ دعوی کرے کہ اس کی اولیں تعلیم ہمیشہ یکساں طور پر زمانہ و ملک کی موافقت کر سکتی ہے تو اس سے زیادہ جھوٹ دنیا میں صرف یہ ہوسکتاہے کہ ہم ایک وزنی چیز کو بلندی کی طرف پھینکیں اور کہیں کہ زمیں اس کو اپنی طرف نہ کھینچے گی“۔

یہاں پر میں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھ رہا ہوں کہ کیا سماجی حرکیات پر خاص پیٹرن لاگو کیا جاسکتا ہے؟  کیا کسی مذہبی ضابطے کے بغیر انسان سماجی زندگی گزار سکتے ہے ؟ کیا قانوں کا تصور کافی ہے ؟ یا بقول میکاولی قانوں حکمران کا حکم اور خواہش ہے اس لیئے وہ عوامی حقوق کا نمائندہ نہیں بن سکتی؟ کیا الجھن میں رہنا زندگی کا اصول ہونا چائیے ؟ یا پھر اخلاقی تنظیم کیلئے کسی ماورائ قوت کی تابعداری ضروری ہے ؟ کیا اخلاقی پاکیزگی خالص انسانی صفت سے اخذ نہیں کیا جاسکتا ؟ کیا مذہبی ضابطے اب غیرموافق ہو چکے ہیں ؟کیا انسان کی جبلی اظہار پر قدغنین لگانے سے انسانی رویوں میں بہتری آئی ہے ؟ کیا سچ تک پہنچنے کیلئے کسی صراط مستقیم کو طے کرنا لازمی ہے ؟ یا پھر یہ ایک بے راستہ سرزمین ہے ؟

ان سوالوں کا جواب پس ساختیات کے مفکرین نے معقول انداز میں اپنے ساخت شکن تصورات کی صورت میں دیا ہے جن کا لب لباب یہ ہے کہ اب لہروں کا ایک شور ہے اور اس شور میں آدمیوں کی آوازیں ہے اور جواب دینے والا کوئ نہیں۔ اس نکتے کو جون ایلیاء اپنے ایک شعر میں یوں بیاں کرتے ہے۔

زمہ دار وجود کوئ نہیں
کوئ مل جائے زمہ دار اے کاش

اب جبکہ حرکت ہی ہر شئے پر مقدم ہے۔ اور کسی بھی ضابطے کو رائج کرنے کا اختیار طاقت کے مراکز طے کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ساختیاتی سطح پر نہیں تو کم از کم نفسیاتی اور وجودی سطح پر زندگی کا تجربہ کسی طریقہ اور پیٹرن کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے جس طرح کھلی فضا میں پھول کا کھلنا۔ اسی موضوع کو جدو کرشنا مورتی اپنی کتاب "freedom from the known

میں سچ ایک بے راستہ سر زمین ہے کے تصور سے تعبیر کرتے ہے۔  موجودہ سماجی سیاق میں مذہبا اور عقلا ہمیں اس شاعرانہ سچ کو اپنی زندگیوں میں خوش آمدید کہنا چایئے۔ تاکہ چمن کے حسن اور رنگینی کا آزادانہ تجربہ کر سکیں کیونکہ سچ ایک بے راستہ سرزمین ہے۔

Print Friendly, PDF & Email