عقل و دل اور اعمال کا میزاں

دنیا جسے وجود میں آتے ہوئے صدیاں بیت گئے، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے آج بھی موجود ہے. یہ نہ صرف آج موجود ہے، بلکہ صدیاں بیتیں گی، لیکن یہ نئے رنگ اور نئے ڈھنگ کے ساتھ موجود پایا جائے گا. یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ موت و حیات کا تماشا دیکھتے رہیں گے، ساتھ ہی خوشی وغم، حق و باطل، اچھائی و برائی، ظلم و انصاف، علم و جہالت اور پستی و بلندی کے کیفیات سے بھی دوچار ہوں گے.

جن بنیادی فطری قوانین کا ذکر کیا گیا کم وبیش ہر ایک کا واسطہ ان سے ہوتا رہتا ہے. نہ کوئی ان سے دیدہ دانستہ واسطہ جوڑتا ہے اور نہ ہی توڑتا ہے. ایک خودکار نظام ہے جو اپنے آپ آغاز اور اپنے آپ انجام ہے. اضداد کی اس بستی میں تمیز کا ڈھنگ بھی انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے. یہ وہی قوت ہے، جو انسان کو دوسرے تمام مخلوقات سے افضل بنادیتی ہے. افضل بنا نے والی اس قوت کا نام "عقل” ہے.

دوہرا چال چلنے والی اس دنیا میں دو طرح کے کام ہو رہے ہیں. ایک مثبت کام جو اچھائیوں کے زمرے میں آتے ہیں، اور دوسرے منفی کام جو برائیوں کے حصے میں جاتے ہیں. مثبت کاموں کی تائید رحمانی قوتیں کرتے ہیں، اور منفی کاموں کی تائید شیطانی قوتیں. گویا دنیا میں دو قوتیں ابتداء سے بر سر پیکار ہیں اور دنیا میں دونوں ہی کے آثار ہیں. دونوں ایک دوسرے کو زیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں، لیکن مکمل زیر کرنا بھی گوارا نہیں. اس میں بھی ایک مصلحت ہے. کیونکہ دنیا میں اگر صرف اور صرف مثبت آثار ہوتے تو ان کی قدرو قیمت باقی نہ رہتی. مثبت آثار کے مقابلے میں منفی آثار ہیں تب ان کی قدر ہے، ورنہ بغیر اپنے ضد کے ہر چیز بے قدر ہے.

دنیا کے اس بازار میں انسان کبھی اس طرف تو کبھی اس طرف جھکتا ہوا دکھائی دیتا ہے. یہ انسان کی کوتاہی بھی ہے اور مجبوری بھی. یہی مجبوری اس کی اپنے آپ سے دوری ہے. دوری کے مقابلے میں نزدیکی ہے، نزدیکی کا دوسرا نام نیکی اور دوری کا دوسرا نام بدی ہے نیکی کے عوض جزاء ہے، تو بدی کے بدلے سزا ہے. جزاوسزا کا عمل جاری ہے، پر یہ کسی پر ہلکا اور کسی پر بھاری ہے!

جب یہی کیفیت ہے تو زندگی کی بھی ایک قیمت ہے زندگی کی قیمت ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا. اور نہ ہی کوئی دعویٰ کرنے کا اہل ہے. سیدھی سی بات ہے. اچھے کام کرو گے دل خوش ہو گا اور عقل توصیف کرے گی. برے کام کرو گے دل رنجیدہ ہو گا اور عقل ملامت کرے گی. یہی توصیف در حقیقت جزا ہے اور وہی ملامت درحقیقت سزا ہے.

ایک انسان جانتے ہوئے بھی کہ چوری کرنا گناہ ہے کرہی دیتا ہے. نتیجے کے طور پر وہ اپنے عقل کی ملامت کے تحت آتا ہے. یہ ملامت سزا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے برعکس دوسرا انسان اپنے آپ کو برائیوں سے بچاتا رہتا ہے، یہ سوچتے ہوئے کہ برائی کرنا نا فرمانی اور گناہ ہے تو وہ اپنے عقل کی توصیف کے تحت آتا ہے. یہ توصیف جزا نہیں تو اور کیا ہے؟ یعنی عقل و دل اعمال کا میزان اور دین دنیا کے پاسبان ہیں. یہی وجہ ہے کہ دونوں طبقے بہ یک وقت دنیا میں موجود ہیں. ایک خوش ہوتے ہوئے بھی ناخوش ہے، اور ایک نا خوش ہوتے ہوئے بھی خوش ہے. جو خوش ہوتے ہوئے نا خوش ہے وہ اپنے عقل کی ملامت کے تحت ہے اور جو ناخوش ہوتے ہوئے بھی خوش ہے وہ اپنے عقل کی توصیف کے تحت ہے. لیکن اہل دنیا کو کیا معلوم کہ کون خوش ہے اور کون ناخوش؟ اہل دنیا ظاہر کو دیکھتے ہیں، ظاہر میں کوئی خوش ہے تو کوئی ناخوش!

جو انسان اپنے زندگی کے زیادہ عرصے میں اپنے عقل کی توصیف کے تحت آتا رہتا ہے وہ حق کی پیروی کررہا ہوتا ہے. اس کے برعکس جو انسان اپنے زندگی کے زیادہ عرصے میں اپنے عقل کی ملامت کے تحت آتا رہتا ہے وہ باطل کی پیروی کررہا ہوتا ہے. کیونکہ عقل حق کا پیرو ہے باطل کا نہیں. یہی سبب ہے کہ ہر انسان عقل رکھتا ہے تاکہ اسے معلوم ہو کہ وہ اچھائی کی طرف گامزن ہے یا برائی کے سمندر میں غوطہ زن ہے!

Print Friendly, PDF & Email