ساختیات کے متاثرین

زندگی ایک جبر مسلسل کا نام ہے۔ کوئی بھی ذی روح زندگی اپنی مرضی سے نہیں گزار سکتا بلکہ ایک ساخت کے تحت گزار نے پر مجبور ہوتا ہے حالانکہ وجودیت تھیوری کے مطابق انسان آزاد ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنی خواہشات کے مطابق گزاریں۔ مابعد جدیدیت ادبی تحریک کے مطابق ہمیں زندگی اوصاف اور اقداروں کی تجربیت کے تحت نہیں بلکہ عملیت کے تحت گزارنی چاہئے۔
ساختیات کے حافظے کا یہ عمل غیر شعوری طور پر انسانی زندگی پر اثرانداز ہوکر جن چیزوں سے انسان متاثر ہوتا ہے، وہی لاشعور کا حصہ بن جاتاہے اور اسی کا گرویدہ، قیدی یاغلام بن جاتاہے۔ پھر یہی ساختیات عملی مظاہر بن کر انسان سے شعوری طور پر سر زد ہوتے ہیں۔

اصل میں یہی ساختیات جو کہ کسی بھی معاشرے میں فولکلوری طور پر اجتماعی ذہانت کا نتیجہ ہوتا ہے، ذہن نشین ہوکر ہدایات اور احکامات کا منبع بن جاتاہے۔ انسان پھر جو سوچتاہے، ان ساختیات کے عملیت کا مظاہرہ کرتاہے۔ دراصل لا شعور میں جو ساختیاتی ڈھانچہ محفوظ ہوتاہے، یہی ساختیات انسان کو انہی مطابق کردار ادا کرنے کےلئے مسلسل ابھار دلاتا ہے۔ ادب میں ساختیات کی ابتداء فولک لور سے شروع ہوتا ہے جب اجتماعی ذہانت نے ادبی ساخت کی بنیاد ڈالی۔ تاریخی لحاظ سے ادبی ساختیات میں ثقافتی متاثرین میں لسانی، نسلی اورجغرافیائی عوامل نمایاں رہےہیں۔ ابادی بڑھنے کے ساتھ مختلف ثقافتوں کے بنیاد ڈالنے شروع ہوگئے۔ ان ثقافتوں سے اثر قبول کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتے گئے۔ ان ساختیات میں مذاہب کی تاویلات اور تشریحات شامل ہوتے گئے اور ہر ایک ثقافتی ملغوبے کے متاثرین نے اپنی ثقافت کو سچ اور بر حق کے دعوے گردانے گئے۔ شروع میں ساختیات زمان اور مکان کے قید سے آزاد نہیں تھے یعنی ہند کے باشندے کا افریقہ کے ساختیاتی تشکیلات اور اثرات سے محفوظ تھا۔

ثقافتوں کے یہ رنگین جھرمٹیں بیش بہا نعمتوں سے کم نہیں مگر ان کے متاثرین میں آپس میں قبولیت کا مسئلہ رہا ہے اگرچہ ایک ثقافت کے متاثرین دیگر ثقافتوں سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ادبی ساختیات کے متاثرین پر ثقافت کے ساتھ نظریات، بیانیوں، تھیوریوں، اساطیرات اور توہمات کے عمیق اثرات ہوتے ہیں۔
الہیات کو ادبی ساختیات کے پراجیکٹ سے مبرّا سمجھا جاتا ہے مگر ادبی ساختیات کے تشریحات اور توضیحات میں الہیات کا تڑکا ضرور دیا جاتاہے۔ ایسی حالت میں الہیات اور ثقافتیں مدغم ہوکر ایک نئی پراجیکٹ کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

نفسیاتی لحاظ سے ساختیات کے متاثرین کا اندازہ ان کے کرداروں سے بہتر طور سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک شخص پر جس ساخت کا اثر ہو وہ اس کے کردار سے آشکارا ہوگا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساختیات ایک پورے سافٹ ویئر کی طرح ہے جو کہ ایک شخص کے لا شعور میں سمایا ہوتا ہے اور جب وہ کوئی عمل کرتا ہے تو وہی چیز سکرین پر نمودار ہوتی ہے۔
ادبی ساختیات میں قبولیت اور عدم قبولیت کا مسئلہ ثقافتی تشریحات اور توضیحات پر منتج ہے۔ مشرقی اور مغربی ثقافتیں مدغم نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے پیچھے گہرے اور پیچیدہ ساختیات کارفرما ہیں۔ ان میں فنون لطیفہ کے مدغم ہونے کے قوی اثرات نمودار ہورہے ہیں۔ فنون لطیفہ کے ساختیات قابل قبولیت کا لیس دار پن رکھتے ہیں جو دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ شکوک اور شبہات کے دائرے سے خارج ہوسکتے ہیں۔ معاصر دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر سے شکوک اور شبہات کے پردے مٹ رہے ہیں مگر دنیا پھر بھی چھوٹے بیانیوں سے دستبردار نہیں ہوسکتی کیونکہ ان میں شناخت کا راز پوشیدہ ہے۔ لہذا جب تک حتمی راز کی تھیوری التواء کا شکار ہو تب تک ساختیات سے فرار ممکن نہیں اور دنیا ایک نہیں ہوسکتی۔ ساختیات کے متاثرین اپنے کارہائے نمایاں سر انجام دیتے رہیں گے اور اضطراب دنیا کا مقدر ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email