جمالیاتی محرومیت

انسانی بقا جنسی پیداواری صنعت کی مرہون منت ہے بشرطیکہ قدرتی یا کیمیائی آفات آڑے نہ آئے۔ جنسی پیداواری صنعت کے پیچھے جمالیاتی حس کارفرما ہے وگرنہ یہ ایک مشقت ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہوسکتا ہے۔ جمالیاتی احساسات انسان کو جذباتیت کی طرف دھکیل دیتا ہے جہاں مشقت لذت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ انسان ما فی ارادہ کلی یا جزوی طور پر لذتوں کا شکار رہا ہے۔ لذتیں دراصل جمالیات کے ساتھ ذو معنی شکلیں رکھتی ہیں جو کہ مادیت، حساسیت اور تصوریت سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ طبی اور حیاتیاتی طور پر جمالیاتی حس کو دبانے سے جسم کے اندر کیمیائی ہارمونز کا اخراج بری طرح متاثر ہوتا ہے جس سے اعضاء کے اندر بے ربطگی پیدا ہوتی ہے۔ یہی حالت اضطرابی کیفیت جمالیاتی محرومیت کو جنم دیتی ہے جو کسی بھی وقت لاوے کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔

جمالیاتی محرومیت کی دو پہلوؤں اجتماعی اور انفرادی ہوسکتےہیں اور خطرناک ترین زاویوں پر منتج ہوسکتےہیں۔ مشاہدات اور احساسات جذبات کو ابھارتے ہیں۔ جذبات یا تو مجروح ہوتے ہیں اور یا محظوظ ہوتے ہیں۔ محظوظیت فطری ہے اور محرومیت تشکیل کردہ ہے۔ محظوظیت کو خوشی اور محرومیت کو غم پر قیاس کرکے جمالیات ہی خوشی اور غم کا تصور بن جاتا ہے۔ جمالیات سے محظوظیت خوشی اور محرومیت غم ہے۔ انسان فطرتاً مرکزیت خوشی کو متصور کرتا ہے۔

فطری انسان کو ساختیاتی قیود اور قدغنوں میں مطلقاً باندھنا انسان کو غیر فطری اور جمالیاتی محرومیت کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر فطری انسان گمراہ ہے تو غیر فطری انسان گمراہ بننا چاہتا ہے۔ حالانکہ جمالیات بہت کم غیر فطری ہے۔ فطرت کو فطرت سے دور رکھنا محرومیت ہے۔ انسان کی حیوانیت فطری جبکہ مصنوعیت تشکیل کردہ ہے۔ پرند چرند اپنے ماحول میں جمالیات سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے ماحول سے دور کرکے ان کو محروم بناناہے۔ ساختیات کے وہ تشکیل کردہ قاعدے اور قوانین جو انسانی زندگی کو مصنوعیت میں دھکیل دیتا ہے وہ جمالیاتی احساسات اور جذبات پر کاری ضرب ہے۔ انسان کی مصنوعی شکل غیر فطری ہے۔ قاعدے اور قوانین خواہ ہر تہذیبی ڈھانچے کے ہو مگر انسان کو بے لگام ہونے سے روکنا ہے۔ ہر فطری انسان ہر حال میں تشکیل کردہ ساخت کو آر پار کرنے کے لیے پر تول رہا ہے جن کو گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے جوڑ کر اس کی اڑان کو پابند کرتا ہے۔ انسان جمالیاتی لذتوں سے خود کو روشناس کرانے کے لیے ہر حد پار کر جاتاہے مگر طریقہ واردات کا تعین مختلف زاویوں سے کرتاہے وگرنہ جرائم کا یہ شرح بمثل مثقال ہے۔ انسان ان چیزوں میں جھانکنے کے لیے مضطرب ہے جو کہ اس کے لیے باپردہ ہیں جن سے مراد تشفی وتسلی ہے۔ ایک سخت پیاس کی اذیت میں مبتلا شخص کے لیے دریا میں ڈوبکی لگانا جمالیات ہیں۔ ایک بھوکے کے لیے افریقہ کے جنگلات میں سیب نظر آنا جمالیات ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے محرومیت متعلقہ جمالیات کے ان دیکھی آنکھ، ان سنی کان اور ان چھوئی اعضاء کی اضطرابی کیفیت ہے۔ لذت، خوشی، اسودگی، تشفی اور تسلی جمالیات ہیں خواہ ان کا منبع یا سرچشمہ کے وسائل کچھ بھی ہو۔ ان سے دور رکھا جانا محرومیت ہے۔ارادی اور ساختیاتی ممانعت محرومیت کو پروان چڑھاتا ہے ورنہ جمالیات سے لطف اندوز ہونے کے لیے نچلے درجے تو عین ممکن ہے کہ فراواں ہو۔ جب محرومیت کلائمکس کو چھونا شروع کردیں تو اجتماعی اور انفرادی رذائل اور جرائم ٹپکنے لگتے ہیں جس میں تشفی اور تسلی کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتے جن کی مثالیں آئے روز واقعات ہیں جن کے مرتکب محروم لوگ ہیں۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email