تانیثيت کا جواز

تانیثیت، نسائیت یا تحریک حقوق نسواں عورتوں کی عزت اور حوصلہ افزائی کی نہیں بلکہ ان کے جائز حقوق دلوانے کی تحریک ہے۔ یہ تحریک سیاسی، معاشرتی اور معاشی طور پر مادہ جنس کو بنیادی حقوق کے لحاظ سے مستحکم کرانے کی تحریک ہے۔ ان کے روح رواں بٹی فریڈن، جوڈت بٹلر، جولیا کرسٹیوا اور بہت سارے فلسفی ہیں۔

تانیثیت سے متعلق تاویلات، تشریحات، ترویجات، مندرجات اور ترجیحات سے پرے ہٹ کر عملیت پسندی پر آتے ہیں جن کے معاشرے میں ہمیں ائے روز پیش آنے والے واقعات ہیں۔ مثال کے طور پر بس میں ایک مرد ایک خاتون کو اپنی نشست کی پیشکش کرتا ہے اور خاتون نشست پر براجمان ہوجاتی ہے۔ مرد اس عمل کو خاتون کا احترام گردانتا ہے اور فخریہ انداز میں کھڑا ہوکر اپنےلئے اعزاز سمجھتا ہے۔ خاتون یہ سمجھ لیتی ہے کہ اس کی لاج رکھ کر وہ حوصلہ افزائی کا حقداربنتا ہے۔ حالانکہ مرد کی عزت و احترام میں عورت کی پوری زندگی پگھل جاتی ہے۔

تانیثیت اس سے برعکس حقوق پر آتی ہے کہ اگر خواتین واقعی معاشرے کا نصف حصہ ہے تو بس میں خواتین کے لیے آدھی نشستیں ضرور ہونی چاہئیے یا سرے سے تفریق کو روا نہیں رکھنا چاہیے۔ بس میں کم گنجائش رکھنے کے باوجود معذور افراد کے لیے مختص سیٹوں پر اکثر مرد حضرات قابض نظر آتے ہیں۔خواتین کو صرف موٹر کار تک رسائی بھی پانچ فیصد سے کم حاصل ہے۔ دنیا کی جائیدادیں، مارکیٹیں، ہوٹلیں، ریسٹورنٹس، پلازیں، اپارٹمنٹس، بڑے بڑے شاپنگ مالز، شو رومز، کلبز، کارخانے اور بینکس اکثر مردوں کے نام ہیں۔ عام روزگار کے مواقع تک عورتوں کی رسائی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہےکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہیں بلکہ مذہبی، ساختیاتی اور ثقافتی قدغنیں ہیں۔ اسی طرح عوامی مقامات پر ایک قطار میں عورت کو پہل دینے کی بجائے یہ دیکھنا ہے کہ قطار میں اتنے زیادہ مرد کیوں ہیں۔ خواتین ہر میدان دوسرے درجے کی شہریت کی حامل کیوں ہیں۔ ایک عورت بائیک پر مرد کے پیچھے دونوں پیر ایک جانب موڑے کیوں بیٹھتی ہے۔ عورت مرد کو کیوں گھور گھور کر نہیں دیکھ سکتی؟ کوئی بھی خاتون ملازم جنسی ہراسانی سے بچ نہیں پاتی۔ کم ازکم مرد کاؤنٹر پر خاتون کی انگلی چھونے سے تو گریز نہیں کرتا۔اگر مرد اتنا بے لگام ہے تو تانیثیت کا جواز تو بنتا ہے؟

تانیثیت پدرسری(پٹریارکی) کی ضد تحریک ہے جس نے صدیوں پرانے نظام کو چیلنج کیا ہوا ہے۔ یہ تحریک اپنی وجودیت میں سنہری دور تک سفر طے کرکےاپنی منطقی انجام کو پہنچے گی۔ روایتی جنسیت میں عورت محکوم رہی، جدید جنسیت میں عورت نے اپنا مقدمہ اٹھایا اور نیو جنسیت میں عورت اپنے حقوق حاصل کرنے کےلئے تگ و دو کرتی رہی ہے۔

مثال کے طور پر گھر کے سربراہ کے پیچھے دبے پاؤں اور پژمردہ چہرے کے ساتھ شٹل کاک برقعہ میں ملبوس خاتون کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مرد اس کی رہنمائی کررہا ہے اور ساتھ ہی بچہ اور گٹھلی بھی اٹھا رکھا ہے جو کہ عزت اور احترام کی حد ہے حالانکہ یہ تانیثیت نہیں ہے بلکہ ثقافتی گٹھن ہے۔ مرد کبھی عورت کی طرح سوچ سکتا ہےاور نہ ہی ان کی خواہشات کا بہتر ادراک کرسکتا ہے۔

اگر انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں عورتوں کو مواقع فراہم نہیں کیئے تو عسکری محکموں میں خواتین کی تعداد کم ہونے سے دنیا کی تباہی کے ذمہ دار بھی وہ نہیں ہیں۔ خدمات کے اداروں میں عورتوں کی تعداد نہ ہونے یا کم ہونے سے نفاست کا فقدان ہے جس سے اکثر مرد حضرات چڑچڑاپن کے شکار ہو جاتے ہیں اور ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

دنیا میں تقریباً تمام ساختیاتی ماڈلز مردوں کے پیش کردہ ہیں۔ ان تمام ماڈلز میں مرد نے اپنے ذہنوں کے مطابق خواتین کی بحیثیت کموڈیٹی احکامات صادر کیئے ہیں۔ ان ساختیاتی ماڈلز کے نمونے اتنے وافر ہیں کہ دنیا کے ہر کونے میں واضح حقیقت کی شکلیں اختیار کیئے ہیں۔میزوجنی تیوری (مردوں سے نفرت) کا مطلب دراصل مردوں کے ساختیاتی ماڈلز کو چیلنج کرنے سے ہے۔ تانیثیت ان ساختیاتی ماڈلز کو عورتوں کی نظر سے نظر ثانی کرنے کی تحریک ہے۔ مختصراً تانیثیت کو عورتوں کےحقوق کی بجائے عزت و احترام سے جوڑ کر اس تحریک کی افادیت کو ذق پہنچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email