غیر منطقی دلائل

معاشرتی زوال کے پیچھے غیر منطقی دلائل ہیں جو ساختیات کا حصہ ہے۔ الہیات کو ساختیات سے نکال کر ہمارے پاس وہ تہذیبی ورثہ باقی رہ جاتاہے جو ثقافت رہن سہن، رسومات، توہمات اور اساطیرات کا ملغوبہ ہے۔ ادب بھی ان ساختیات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا رہا ہے۔ سائنس کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ یک زبان ہیں کہ مذاہب کو سائنسی نظر سے نہ پرکھا جائے مگر کسی بھی مذہب کا پیروکار سائنسی کارناموں سے انکار نہیں کرتا بلکہ سائنسی آلات سے خاطر خواہ مستفید ہورہے ہیں۔ سائنس کا کوئی مذہب نہیں ہے مگر ہر مذہب نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو تسلیم کیا ہے۔ البتہ یہ بھی بعید از قرین و قیاس نہیں کہ سائنس بھی ایک وقت میں مذہبی عقیدہ بن جائے۔ سائنس جدید ترین شکل میں انسانی جسم کو ہی ہر چیز کا منبع تصور کرتاہے جو احساسات، خواہشات اور جذبات کا مرکزی دھارہ ہے۔ سائنس روح کو سوچ اور فکر کی انتہائی پرواز کی شکل میں لیتا ہے۔

اگر اس دنیا کی باقی ماندہ زندگی ہم ایک ہزار سال تصور کریں تو کئی قسم کے نئے عقائد سامنے آسکتے ہیں۔ کیونکہ انسان جس چیز سے متاثر ہوتا ہے اسی کا گرویدہ بن جاتا ہے۔ انسان آج بھی عقلی طور پر خام ہے اس لیے تجربات سے سیکھتا آرہا ہے۔انسان جہاں پر مات کھاتا ہے وہ غیر منطقی دلائل ہیں جن کو ساختیات کا حصہ گردانا جاتا ہے مگر پھر بھی اس کے ساتھ جڑا رہنا چاہتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ دیہات میں شور مچاجائےکہ جنگل سے خونخوار درندے دیہات پر حملہ اور ہوں گے۔ لوگ چوکنا ہوکر افواہیں پھیلاتے ہیں یا انتظار کرتے کرتے گل سڑ ہوجاتے ہیں مگر تحقیق یا ترکیب نہیں کرتے ہیں۔ ایک نوبل انعام یافتہ سائنسدان عورت کیرولین برٹوزی  نے کلک کیمسٹری دریافت کرنے میں معاونت کی جس سے کینسر مرض کا علاج ہوگا اس کو یوں رد کیا جاتا ہے کہ وہ لیزبین ہے اور ایک پارٹی میں ناچتی ہوئی دیکھی گئی تھی۔ ایک ہی وقت میں خاتون ڈاکٹر او خاتون نرس میں فرق برتا جارہا ہے ۔ کوتاہ اندیش لوگ سمجھتے ہیں کہ خواتین اعلی تعلیم حاصل کرنے سے بے حیا ہوجاتی ہیں۔ یہ اتنا ہی فرسودہ خیال ہے جتنا کہ بعض قوتیں یہ تصور کرتے ہیں کہ تعلیم یافتہ خواتین ان سے اختیارات چھین لیں گی۔یہ بھی غیر منطقی دلائل ہیں کہ دنیا میں انتشار اور افتراق صرف مذاہب کے پیدا کردہ ہیں بلکی سیاسی نظاموں نے مذاہب سے زیادہ دنیا کے ممالک اور عوام کو مختلف کلاسوں میں بانٹ رکھا ہے۔ یہ خیال غیر منطقی لگ رہا ہے کہ بالآخر دنیا پر صرف ایک مذہب یا سیاسی نظام کا بول بالا ہوگا۔ مذاہب کی تعلیمات پر ہم آہنگی کی ایک شکل پروان چڑھ رہی ہے جو کہ رد اور قبول کشمکش کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ کوئی بھی سیاسی نظام پوری دنیا کے لیے بہترین ثابت نہیں ہوسکا کیونکہ کہیں نا کہیں اس کی ٹکر مذہب، ثقافت اور دیگر سیاسی نظاموں سے آتی رہی ہے۔

معجزات حادثاتی واقعات ہوسکتےہیں جن کو اکثر الہیات کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ اساطیرات کو اس لئے رد کیا جارہا ہے کہ وہ ماضی کو حال پر قیاس کرتے ہیں۔ توہمات ذہنی پسماندگی کے سوا کچھ نہیں۔اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر زندگی گذارنے کے لیے ہمارے پاس کیا ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی ہے بشرطیکہ الہیات کو تبرکات سمجھ کر اس دوڑ میں ساختیات سے مبرا تصور کریں۔

۔ ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی انسانوں کی تشکیل کردہ ساختیات اور ایجادات ہیں۔ ثقافت کی محدودیت یہ ہے کہ یہ کوئی عقیدہ نہیں ہے اس کا دارومدار زبان پر ہے اور کوئی خاص آئینی ساخت نہیں رکھتے۔ ثقافت سے نسلی اور جنسی امتیازات کو نکالنا بہتر زندگی گذارنے کےلئے نسخہ اکسیر ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی آرکی ٹائپس کے بارے میں دلائل نہیں رکھتے بلکہ اپنا سفر طے کرتا آرہا ہے۔
چند تاریخی مغالطے اس طرح بھی دور ہوسکتےہیں کہ اس دنیا ایسی کونسی جگہیں ہیں جہاں مہم جو ابھی تک نہ پہنچے ہو تاکہ وہاں جاکر اس دنیا کی نئی چیزیں دریافت کریں۔ اگر اس دنیا کے ہر کونے کو سر کر کیاگیا ہے تو ظاہر ہے بھر کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا ہوگا جو کہ مستقبل قریب میں امکان نہیں رکھتا۔ یہی انسان کی کم فہمی کا پیمانہ ہے اور اس نقطے سے انسان پھر الہیات، توہمات اور اساطیرات کو ماننے کا قائل ہوجاتاہے۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email