پولو ایسوسی ایشن اور شندور

شندور میلہ 1929سے ہورہاہے۔90سالہ پرانامیلہ1989کے بعد سالانہ میلہ بن گیا۔سب سے شاندار میلہ1980ءمیں منعقد ہوا تھاجب اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے خود میلے کا افتتاح کیا۔اس کے بعد سربراہان حکومت اور سربراہان مملکت میلے کے آخری دن مہمان خصوصی کی حیثیت سےشرکت کرنے لگے۔جنرل ضیاء نے شندور کے میلے کو شندور پولو فیسٹول کا نام دیااور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے ساتھ چترال  کی ٹیموں کے ناک آوٹ مقابلوں کا اجراء کیا۔ شروع میں 3 ٹیمیں ہوتی تھیں۔ ہر ٹیم اپنا میچ الگ کھیلتی ہےاور ہر ٹیم کی الگ چیمپین شپ ہوتی ہے۔اب شندورمیں دونوں طرف5 ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ دونوں طرف سے پولو ایسوسی ایشن کے عہدیدار ٹیمیں تشکیل دیتے ہیں اور ایونٹ کو کامیاب بناتے ہیں۔ اس سال شندورپولو فیسٹول کے حوالے سےچترال پولو ایسوسی ایشن اور صوبائی حکومت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔صوبائی حکومت نے دو سالوں سے ہارس الاونس اور دیگر واجبات ادا نہیں کئے،ضلعی انتظامیہ سے پولو ایسوسی ایشن کو شکایت ہےکہ انتظامیہ نے صوبائی حکومت سے فنڈ کیوں نہیں لیا؟اس شکایت کی وجہ سےضلعی انتظامیہ نے پولو ایسوسی ایشن اور سیلیکشن کمیٹی کوبائی پاس کرکےٹیموں کا اعلان کیا۔پولو ایسوسی ایشن کے سربراہ کو ٹورنمنٹ سےنکال دیا۔ پولو ایسوسی ایشن نے مزاحمت اور احتجاج کا راستہ اختیار کیا ۔پولو فیسٹول کے لئے کھلاڑیوں کے گھوڑے 10 دن پہلے شندور پہنچائے جاتے تھے۔ گلگت کی ٹیموں کے گھوڑے شندور پہنچادیے گئے ۔چترال سےبھی چترال سکاوَٹس اور چترال لیویز کے گھوڑے شندور پہنچ گئے ۔ جبکہ پولو ایسوسی ایشن نے بائیکاٹ کیا ہو اتھا ۔  اگر  گھوڑے ایک دن یا دو دن پہلے شندور پہنچ گئےتو 12 ہزار فٹ کی بلندی  پر ماحول کے ساتھ مانوس (acclimatize)نہیں ہوتے ہیں اور گھوڑوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے ۔چترال کے عوام اور پولو کھیل سےدلچسپی رکھنے والے شایقین اس بات پر حیران ہیں کہ کمشنر ملاکنڈ،سیکرٹری ہوم اور سیکرٹری ٹوارزم نے اس تعطل کا فوری نوٹس کیوں نہیں لیا۔  26 جون سے 8 جولائی تک 8 دن کی تاخیرکیونکر ہوئی؟ پھر بھی شکر ہےکہ کمشنر ملاکنڈریاض خان محسوداور ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ کی کوششوں سے5 جولائی کو تعطل ختم ہوا۔ پھر بھی جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا،اس نقصان کا ازالہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب کمشنر ملاکنڈکی  ہدایت کے مطابق ایک غیر جانبدار گورننگ باڈی تشکیل دے کر گھوڑوں اور کھلاڑیوں کے انتخاب کا کام اس کے سپرد کیا جائےاور کپتان کے انتخاب کا اختیارکھلاڑیوں کی صوابدیدپر چھوڑ دیا جائے ۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

Print Friendly, PDF & Email