شناخت کا رَنج و ملال

عصرِ حاضر میں کوئی بھی انسان مکمل نہیں مگر ابتر شناخت کے بلند وبالا دعوے بَبانگ دہل ہو رہے ہیں۔ بناؤ سنگھار کا مطلب یہ ہے کہ اندر سُقم بہرحال موجود ہے۔ فطری انسان سفید، کالا، پیلا، لمبا، بونا، بھدا، حسین ، جمیل ، نر، مادہ، کھسرا، صحت مند اور بیمار ہوسکتا ہے مگر مذہب پرست، ثقافت پرست اور تہذیب پرست نہیں ہوسکتا۔

نسل پرست اس لیے نہیں ہوسکتا کہ وہ ہر نسل کے مخالف جنس کی طرف رغبت روا رکھتا ہے۔ فطری انسان محض شکم پرست، عیش پرست، جنس پرست اور آرام پسند ہوسکتا ہے۔ فطری انسان کو مصنوعی ساختیاتی ڈھانچے نے زرپرست او شناخت پرست بنایا ہوا ہے۔ دراصل آزاد انسان کو مختلف نظام ، ضابطے،اصول اور قوانین نے قدغنوں کے شکنجوں میں جکڑے رکھا ہے۔ اس لیے انسان اپنی شناخت کے لیے دگرگوں صورت حال سے دوچار ہے اور یہی روگ انسان کا رنج والم بنا ہوا ہے۔

طبعی لحاظ سے ایک صحت مند انسان بھی جینیاتی طور پر موروثیت میں غیر صحت مندانہ جینز کا کیریئر ہوتا رہا ہے مگر ٹرانس کو جنم دینے کی شناخت اور قبولیت سے انکاری یا کتراتا رہا ہے۔ ٹرانس کی اپنی شناخت برتر نہیں ہوسکتی البتہ ابتری سے باغی یا متنفر پن کا سفر شامل حال رہا ہے۔ اگرچہ جمالیاتی برتری کی خام خیالی کی شناخت ان کی زندگی کا خاصہ رہا ہے۔ ٹرانس کی شناخت کے اس رنج و الم کا مداوا بہرحال مشکل نظر آتا ہے اور زندگی کا یہ روگ لئے معاشرے میں جگہ بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ مذہب کا لبادہ اوڑھنا شروع سے برتر شناخت کا وطیرہ رہا ہے۔ شناخت کے لحاظ سے مذہب انسان کی اصل شکل پر شناخت کا ایک اور پَرت چڑھاتا ہے۔ اسی طرح ثقافت بھی شناخت کے لیے ایک دلیل کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی شناخت کھونے یا بدلنے کا ملال سیاسی شناخت کھونے یا بدلنے سے زیادہ تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ انسان کی فطری اضطرابی کیفیت اس وقت شدید دگرگوں حالت اختیار کر لیتا ہے جب وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی شناخت چیلنج ہو چکا ہے۔ تب وہ اپنی شناخت پانے یا منوانےکے لیے سر توڑ سعی کرتا ہے۔ شناخت کا یہ کھویا پن اور اس کا رنج و ملال اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ وہ پھر کسی جرم کرنے سے باز نہیں آتا۔ یہ رنج وملال تب زیادہ خطرناک ترین صورت اختیار کرتا ہے جب ایک شخص کو اپنی برتر شناخت کے کھونے کا خوف ہو۔ وہ اپنی برتر شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک تصوراتی ڈھانچہ بناتا ہے اور خود اس کا ایک مضطرب نگران بن جاتاہے۔ اس کی حالت، رعب و دبدبہ، جلال، طاقت، نشہ، ڈر، خوف، ضعف اور کمزور پن کا ملغوبہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی برتر حالت کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی ممکن سعی سے احتراز نہیں کرتا۔ ایک بڑا، رتبہ، منصب برتر شناخت کی شکل کی علامت ہوسکتی ہے۔ ایک بدھا شخص برتر منصب پر براجمان ہونے سے مالی، سیاسی اور جمالیاتی طور پر برتر شخصیت کی شناخت کو ہم پلہ یا زیر کرنے کے درپے ہوسکتا ہے۔ جاہ و جلال الاپنے کا مقصد برتر شناخت کھونے کی ڈر کے رنج کا جشن منانا ہے۔ تانیثی افکار اس لیے مغلوب ہیں کہ ساختیاتی ماڈل کا اکثر ڈھانچہ تذکیری تشکیلات کا حصہ رہا ہے جن کے اثرات نے بامعنی صورت اختیار کرگیا ہے۔

تانیثی افکار کے حامل افراد کو جب منوایا نہیں جاتا تو یہ رنج و ملال تنفر کا لاوا بن جاتا ہے۔ تذکیری افکار رکھنے والے جب اس کو ایک چیلنج سمجھ لیتے ہیں تو انکی حرکیت غضب کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اپنی برتر شناخت کے لیے ایک روگ کی علامت کی طور پر اس صورتحال کو بے معنی کرنے کے لیے اکھڑ پن کا سہارا لیتے ہیں۔ جمالياتی لحاظ ایک شخص کا زعم یہی ہوسکتا ہے کہ کوئی اور اس سے زیادہ جاذِب نظر ہے۔ جمالیات ایک خطرناک وصف ہے جو کہ فطری تخلیق کو امتیازی حیثیت دیتا ہے۔ جمالیات کو نظر انداز کرنا بھی غیر فطری وصف ہوسکتا ہے۔ جماليات کا ادراک حواس خمسہ سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ فطری دین ہے۔ ان میں سمعیِ اور بصری حواس چیزوں کا ادراک جن زاویوں پر کرتا ہے، ان میں اگر مصنوعی پرکھ شامل نہ ہو تو یہ حواس عین فطری ہیں۔ ساختیاتی پن کا مطلب یہ ہے کہ تشکیل کردہ ڈھانچہ فطری نہیں ہے۔ انسان فطری چیزوں کے حصول کے لیے غیر فطری چیزوں کا سہارا لیتا ہے۔ انسان ہر فطری چیز کو قبول نہیں کرتا اس لیے قدرتی آفات سے نمٹنے کا بندوست کرتا رہا ہے۔

ابتر شناخت وہ رنج و الم ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے ذہن کو منفی افکار پر مرتکز کرتا ہے۔ ابتر شناخت وہ ڈر و خوف ہے جو ہست سے نیست کے رجحان تک بے وقت ماتم منانا ہے۔ کالی چمڑی کا رنج والم زندگی بھر کا روگ ہے کیونکہ یہ فطری تشکیل ہے۔

ایک فرد کی جسمانی ساخت میں اگر جمالیاتی خدوخال پر بھدا پن حاوی ہو تو وہ اسی شناخت پر ساری عمر واویلا مچاتا رہے گا۔ کسی خاص قوم کی ثقافتی اوصاف، اقدار، رسوم اور روایات میں اگر کوئی سقم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس متعلقہ ڈھانچے میں فولکلوری ساختیات میں سقم موجود ہے تو وہ قوم اس شناخت کا ماتم منائےگی۔ اس واسطے بعض اقوام فرسودہ روایات کو ترک کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ کوئی فرسودہ روایت زندگی بھر کا روگ بن جانے سے ترک کرنا نئی شناخت کے لیے باعث تسکین ہے۔ انسان سکھ کے سانس لینے کا پجاری ہے خواہ وہ سکھ کسی بھی شکل میں موجود ہو۔ قدغنیں اس لیے روا رکھے جاتے ہیں کہ کوئی بھی سکھ باطل نہ ہو۔ باطل کو اگر ہم حق کا متضاد لے لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قدریں ہر مذہب، ثقافت اور تہذیب میں قبولیت کے درجے پر ہو۔ برتر شناخت کا مارا ظالم ہوسکتا ہے البتہ ابتر شناخت رکھنے والا باغی یا متنفر ہو تا ہے۔ ابتر شناخت والا اس وقت وحشی پن کا رجحان اپناتا ہے جب وہ رد عمل دکھاتا ہے۔

یہ بقا کی جنگ ہے جو انسان ساختیاتی ڈھانچے میں گوناگوں کا شکار ہوتا ہے۔ انفرادی طور پر شناخت زندگی کا روگ ہے جس کے کھونے یا پانے کے درد کا ماتم منانا انسان نے مصنوعی ساختیات میں اپنے اوپر فرض کیا ہے۔ ابتر اور برتر شناخت کھونے یا پانے کا رنج والم انسان سے غیر نتی کرنا ساختیاتی ڈھانچے کو رد تشکیل کے عمل سے گزارنا ہوگا وگرنہ کوئی بھی شناخت پانا یا کھونا بہر حال زندگی کا روگ رہے گا اور یہ روگ رنج والم کی شکل میں انسان کو کھوستا رہے گا۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email