چترال سے باہر چترالی طالبات کے مسائل

انسانی تاریخ میں عورت کو صنف نازک کا نام دے کر کم تر اور حقیر سمجھا جاتا رہا، کبھی عورت کے وجود کو ہی معاشرے پر بوجھ سمجھ کے مٹانے کی کوشش کی گئی۔ کبھی ناکردہ گناہوں کا بوجھ صنف نازک کے ناتواں کندھوں پہ ڈال کے اسے سولی پہ چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ کبھی عورت کو اپنی تفریح اور انا کی تسکین کیلئے کھلونا بنا کر سر عام نچانے کی کوشش کی گئی ۔ مگر عورت کی اہمیت تب بھی کم نہیں ہوئی۔ جب بھی عورت نے اپنی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ دنیا کی رنگینیاں اور کائنات کی خوبصورتی عورت کے بغیر ہیچ ہیں۔ عورت نہ صرف اس دنیا کو جنت بنا سکتی ہے بلکہ حقیقی جنت بھی عورت کے قدموں تلے ہی ہے۔

ایک مغربی مفکر نے کیا خوب کہا ہے ”عورت زمین پر فطرت کی شاعری ہے، اسی طرح جس طرح آسمان پر ستارے اشعار ربانی ہیں، مرد اگر جلال کبریائی کا مظہر ہے، تو عورت جمال ربانی کی علامت ہے“۔ معاشرے میں امتیازی سلوک کے باوجود ہمیشہ سے انسانی زندگی عورت کے بغیر نامکمل رہی ہے کیونکہ

”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“

گھر کی سطح پر جب ہم دیکھتے ہیں تو عورت ہی وہ ہستی ہے جس کے ہاتھوں ایک قوم یا ملت کی پرورش ہوتی ہے جوکہ آسان کام نہیں وہ اپنے اندر وہ سب کچھ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے جس سے ایک بہترین انسان کی تشکیل ممکن ہو اور وہ اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرتی بھی ہے۔اسی طرح جب اس کی اپنی باری آتی ہےتو معاشرے کی کچھ فرسودہ رسموں کے مقابلے میں اکیلاپن محسوس کرتی ہے۔ معاشرے میں مردوں کے جو عمومی مسائل ہیں وہ عورتوں کیلیے بھی مشترک ہیں مگر کچھ مسائل مخصوص ہیں جنھیں عورت ہونے کے ناطے اکیلا سہنا پڑتا ہے۔

اسی طرح چترالی طالبات کو چترال سے نکل کے پشاور آنے کے بعد کافی سارے مشکلات پیش آتے ہیں۔ اپنے سارے کام خود کرنا ،تن تنہا شہر میں باہر نکلنا ہی بہت بڑی بات ہے ۔گاؤں کا ماحول آچانک بدل جاتا ہے جہاں ماں باپ اور بڑے بہن بہائیوں پر انحصار ہوتا ہےیہاں پھر وہ بات نہیں رہتی۔ چادر اور چار دیواری میں رہنے والی لڑکی کو گھر سے باہر نکل کے سارے معاملات خود سنبھال کے پھر پڑھائی پہ توجہ دینا کافی مشکل کام ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اس مشکل پر قابو پا لیتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ جو تقریباًتمام چترالی لڑکیوں کو درپیش ہے وہ زبان کا ہے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم بول سکتے ہیں لیکن جب بولنے پہ آتے ہیں تو حلق سے وہ آواز نہیں نکلتی جو ہم بولنا چاہتے ہیں وہ بولا نہیں جاتا ہم اپنا مافی الضمیر دوسروں تک پہنچا نہیں سکتے تو اندر ایک خاص بے چینی پھیل جاتی ہے اور طبیعت میں چڑ چڑاپن محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ اور دو سال کا عرصہ جو حصول تعلیم کیلیے ہوتا ہے وہ بول چال سیکھتے گزر جاتی ہیں ۔اس مشکل پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے سکولز اور کالجز میں گفتگو کیلیے قومی زبان کا انتخاب کیا جائے۔ اور زیادہ تر گفتگو قومی زبان میں ہونی چاہیے۔ تاکہ آگے جاکر طلباء خصوصاً طالبات کو ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

تیسرا بڑا مسئلہ اثر پذیری کا ہے۔ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ چھوٹی قومیں بڑی قوموں کی ثقافت سے متاثر ہوکے اپنی ثقافت ، اور معاشرتی اقدار بھولنے کی کوشش کرتیں ہیں۔ اسی طرح دیہاتی طلبا ؤ طالبات بھی شہر کے وسیع ماحول میں قدم رکھتے ہی ذہنوں میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وسعت سوچ اور مطالعے کی حد تک ہو تو درست ہے اگر یہ وسعت منفی طریقے سے آئے تو وبال ہے۔ منفی وسعت احساس کمتری کی وجہ سے آتی ہے۔ جب ہم خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنے لگتی ہیں۔ تو تمام تر خرابیاں یہاں سے شروع ہوجاتی ہیں۔ ہم دوسروں کی نقالی شروع کرکے اپنی ثقافت اور معاشرتی اقدار کو بھول کر دوسروں میں ضم ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کیلیے سکول اور کالج لیول پہ خصوصی تربیت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی ثقافت اور معاشرتی اقدار کو گلے لگا کر دوسروں سے آگے نکل سکتی ہیں۔ ہم جتنے ماڈرن ہیں حصول تعلیم کیلیے وہ کافی ہے ، ایکسٹرا ماڈرن بننے کی ضرورت نہیں ۔ تعلیم وہ جو اخلاقی عروج تک پہنچا دے اور نہ کہ اخلاقی زوال کی جانب لے جائے۔ اس لیے سیانے کہتے ہیں کہ ضرورت فقراء کی بھی پوری ہوتی ہے اور خواہشات بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی۔ اسی قول کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ خواہشات کم ہونگی تو مسائل بھی نہیں ہونگے۔ ورنہ اخلاقی عروج سے اخلاقی زوال کا سفر شروع ہوگا۔ جس علم سے اخلاقی عروج کے بجائے اخلاقی زوال کا امکان ہو اسے حضرت علامہ اقبال نے موت سے تعبیر کی ہے

جس عِلم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دِیں سے اگر مَدرسۂ زن
ہے عشق و محبّت کے لیے عِلم و ہُنر موت

موخر الذکر دو ایسے مسائل ہیں جنہیں سکول اور کالج لیول پہ اگر کوشش کی جائے تو حل ہو سکتی ہیں۔ زبان کا مسئلہ تو آسانی سے حل ہو سکتا ہے ۔ تبدیلی اور اثر پزیری کیلیے بھی تربیت اور ذہن سازی کی ضرورت ہے ۔ہو سکتا ہے اگر سکول اور کالج لیول پہ ان چیزوں پہ توجہ دی گئی تو چترالی طالبات ہر شعبے میں چترال کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی چترالی ثقافت اور اسلامی و معاشرتی اقدار بھی برقرار رکھ سکتی ہیں ۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email