احساسات و خواہشات

 

ویسے بھی زندگی دائمی نہیں چند روزہ ہے، اس لیے بار بار کی شکایت سے کیا فائدہ؟ تم تو یہ چاہتے ہو کہ خواہشات ادھورے نہ رہ جائیں، ارے صرف تم ہوتے تو بات بن جاتی دوسرے بھی تو ہیں. سب کے الگ الگ خواہشات اور الگ الگ احساسات ہیں. جو خواہشات سب کے درمیان مشترک ہیں ان پر غور کیا جاتا ہے، جائز ہوں تو بقدر ضرورت پورا کیا جاتا ہے. اس میں خود اس بندے کی محنت اور تگ و دو کا بھی بڑا دخل ہے. یہ دنیا کا دستور اور دنیا بنانے والے کا منشور ہے.چند لمحے سوچیۓ!

نہ آغاز کا پتہ ہے اور نہ انجام کا. آغاز و انجام ہوتا تو سلسلہ بہت محدود ہوتا،جبکہ بنانے والا حدود سے مبرا ہے. پھر بھی اگر یہ تصور کیا جائے کہ آغاز و انجام والی بات درست ہے تو بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ بنانے والے کو آغاز کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دران حالیکہ وہ بے نیاز ہے اور کسی آغاز و انجام کا محتاج نہیں. دوسری طرف دنیائے ظاہر میں اگر دیکھیں گے تو پیدائش زندگی کا آغاز اور موت انجام ہے. اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے. لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ جزوی آغاز و انجام ہے کلی نہیں. پیدائش سے لے کر موت تک جو دورانیہ گزرتا ہے وہ صاحب زندگی کے لیے امتحان کا دورانیہ ہے. بنانے والا امتحان لیتا ہے اور بنا ہوا امتحان دیتا ہے. ہر امتحان میں کامیابی ترقی کا ضامن ہے اور ناکامی تنزل کا باعث. اس ترقی وتنزل سے اسے کیا دلچسپی ہے؟ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں. گویا زندگی ایک کھیل ہے، کھیل میں جیت کا امکان بھی ہے اور ہار کا خدشہ بھی.

دیکھے بغیر بنانے والے کو دیکھا گیا اور جانے بغیر بنانے والے کو جانا گیا. یہ کمال انسانی نہیں بلکہ جمال ایزدی یے. خود اسی نے اپنی موجودگی کا اظہار کرایا. کائنات کی وسعت دیکھ کر اس کی موجودگی اور قدرت کا احساس ہوا. دنیا جہان کی ان گنت اشیاء کو دیکھ کر یقین آیا کہ وہ یگانہ ویکتا ہے. موسموں کا تغیر دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ وہ تغیر کا محتاج نہیں. پیدائش وموت دیکھ کر یہ تسلی ہوئی کہ کہ وہ خود ان دونوں کیفیات سے مبرا ہے. ظلم و بربریت دیکھ کر یہ یقین آیا کہ وہ عادل اکبر ہے. جھوٹ اور فریب دیکھ کر یہ اطمینان ہوا کہ وہ سدا سچائی کا ہی علمبردار ہے. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانی فہم و فراست کو ناقص دیکھ کر اس کی کامل دانائی پر یقین آیا. یہی نہیں ہر دور میں شیطان کی موجودگی اور کردار کو دیکھ کر یہ تسلی ہوئی کہ رحمان کا نمائندہ بھی ہر دور میں موجود ہے اور موجود رہے گا.

یہ تمام حالات و کیفیات اس کی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں. احساس کی یہ صورت ہر انسان کے اندر ہونا چاہیے. یہ صورت اگر کسی انسان کے اندر نہ ہو تو اپنے آپ کو انسانیت کے دائرے میں کیسے تصور کرسکتا ہے؟ در حقیقت احساس کی یہ صورت انسان کی سب سے بڑی صفت ہے. نہ صرف یہ صفت ہے بلکہ یہ حکمت بھی ہے. جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر سے نوازا گیا اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے!

 

Print Friendly, PDF & Email