کوویڈ ۱۹ کی وبا میں نجی تعلیمی ادرے اور اساتذہ

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانےکےلیےدوسرے عوامل کے علاوہ تعلیم و تربیت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ایسی تعلیم جس کے ذریعے انسانی طرز زندگی کے اندر مثبت تبدیلی آئے اور اس تبدیلی کی جھلک معاشرے میں بھی دکھائی دے بہترین تعلیم و تربیت کا ثمر کہلائے گا ۔ہر شعبہ زندگی میں افراد کار کی روز افزوں ضرورت کو پورا کرنے کےلیے بنیادی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری معلم یا مدرس پہ عائد ہوتی ہے۔جو قوم تعلیم کے معیار کو بہتر سے بہتر بناتی ہے وہ قوم کامیابی کی سیڑھیاں عبور کرتی ہے۔معاشرے میں جو مقام استاد کا ہے وہ کسی دوسرے فرد کا نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے یہ باتیں صرف زبانی کلامی ہیں ۔اساتذہ کرام کو جو مقام ریاست کی طرف سے ملنا چاہئے وہ مقام نہیں مل رہا ۔اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں اس پر بحث ہونی چاہئے.میرے نزدیک اس میں اساتذہ کرام کی بھی کافی کمزوریاں ہیں ۔اساتذہ کرام کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے ۔انہیں سر جوڑ کر اپنی کمزوریوں کا کھوج لگانا پڑے گا ۔وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وہ مسائل کا شکار ہیں؟ اساتذہ وہ سفید پوش لوگ ہیں جو کسی سے نہیں مانگ سکتے اور وہ اپنی مشکل کسی کو کھل کر بیان نہیں کر سکتے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے ان کو زندہ رکھنے کے لیے کوئی حکمت عملی ترتیب دی ہے کہ نہیں؟
سرکاری سکولوں میں جو اساتذہ ہیں ان کو تو ماہانہ تنخواہ باقاعدگی سے دی جارہی ہے جو ان کا حق ہے لیکن نجی تعلیمی ادارے اور مدارس ماہانہ فیسوں ، چندے اور خیرات پر چل رہے ہیں ۔ان اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے تمام سٹاف کی تنخواہیں انہی ذرائع سے ملتی ہیں ۔اب سکول اور مدارس بند ہو چکے ہیں۔
وبائی مرض نے لوگوں کو گھروں میں محصور کر رکھا ہے لوگ معاش کےمسائل کا شکار ہیں ۔وطن عزیر میں طبقاتی نظام تعلیم نے نظام مملکت کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔گوکہ اس میں قصور ریاست ہی کا ہے تاہم نجی تعلیمی اداروں کے کردار کو رول آوٹ نہیں کیا جا سکتا۔طبقاتی ڈھانچے کی تعمیر میں ان تعلیمی اداروں کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
ایلیٹ اور مڈل کلاس کی آبادی اپنے بچوں کو ان ہی اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجتی ہے ،وہاں ان بچوں کی ایک الگ انداز میں اذہان سازی ہوتی ہے ،جب یہ بچے تعلیم سے فراغت کے بعد عملی میدان میں آتے ہیں تو ان کا سامنا سرکاری اور مدارس سے نکلنے والے تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں ۔ ان کا آپس کی متفاوت سوچ، رہن سہن اور متبائن رویے معاشرے کے لیے زہر الود ثابت ہو رہے ہیں اور نہ جانے یہ مربوط سلسلہ کب تک رائج رہے گا؟ خیر یہ الگ پہلو ہے اس پر کسی اگلے کالم میں طبع آزمائی کریں گے ۔اب آتے ہیں ان نجی تعلیمی اداروں اور مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کی حالت زار کی طرف جو کہ بیان نہیں کی جا سکتی ۔ملک کے چند بڑے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام کے علاوہ باقی نوے فی صد اساتذہ کرام موجودہ صورتحال میں فاقوں پر مجبور ہیں ۔یہ ایسا طبقہ ہے جو علم کی شمع لیے لاکھوں پاکستانیوں کو منزل مقصود کی طرف رواں دواں رکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر خود ایسی تاریکی میں کھڑا ہے جہاں وہ کسی کو نظر نہیں آتا ۔تیرگی کی دامن میں چھپتے ہوئے علم کی شمع روشن کرتے اور ساتھ ساتھ اپنی روزی کی تلاش میں شب و روز گزار رہے ہوتے ہیں، اسے تیرگی بخت سمجھیں یا قوم کے روشن مستقبل کے لیے قربانی ؟ اس کا فیصلہ قارئین پہ چھوڑتے ہیں ۔
میں بذات خود ان اداروں میں پڑھا چکا ہوں اس لیے اپنے سقیم تجربات آپ سے شیئر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔شہروں اور دیہات دونوں کے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام کی حالت دھیاڑی دار مزدوروں سے کسی طور پر مختلف نہیں ۔مثلا بیماری کی صورت میں یاایمرجنسی کی صورت میں زیادہ غیر حاضر ہونے کی صورت میں ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے یا انہیں نوکری سے برخاست کیا جاتا ہے ۔موجودہ حالات میں کرونا کی وجہ سے جہاں حکومتی بے اعتنائی کے سبب نجی اساتذہ کرام رُل گئے ہیں تو دوسری طرف ان کا ادارہ اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دے کر ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی کر رہا ہے ساتھ ہی مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کرام کی معاشی حالت بھی حوصلہ افزاء نہیں۔
ملک میں معاشی بحران کا اثر مدارس پر بھی ہوا ہے ۔مدارس کاروباری حضرات اور خیراتی اداروں کی مدد سے چلتے ہیں۔اب موجودہ صورتحال میں مدارس انتظامیہ کو چندے اور دیگر ذرائع سے مدارس کے نظام کو چلانے میں آڑی مشکل کا سامنا ہے ۔ایسے مخدوش حالات میں اساتذہ کرام ایک ایسے چوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ان کی منزل کا کوئی ِسرا معلوم نہیں ۔
نجی تعلیمی اداروں کے پاس مناسب لائحہ عمل دیکھنے کو نہیں ملتی ،نجی تعلیمی اداروں کے مالکان حکومت سے صرف سکول اور کالجز کھولنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔بعض تعلیمی اداروں کے مالکان ترقی یافتہ ممالک کی طرح ایس او پیز پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں لیکن زمینی حقائق بالکل برعکس ہیں جو ادارہ اپنے استاد کا خیال نہیں رکھ پاتا وہ ادارہ سینکڑوں طلبا ؤ طالبات جو سیکھنے کے مراحل میں ہیں ان کے ذریعے ایس او پیز پر عملدرآمد کیسے کر وائے گا؟ ایسی صورتحال میں بچوں کو سکول بھیجنا خودکشی کے مترادف ہوگا ۔موجودہ معروضی حالات کی وجہ سے لوگوں کی معاشی قوت جواب دے چکی ہے ،اس کا اثر بھی نجی اداروں پر پڑ رہا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کی فیس ادا کرنے سے قاصر ہیں اور دوسری طرف نجی اداروں کے پاس ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی میکنزم نہیں جس کی وجہ سے نجی تعلیمی ادارے سخت مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں ۔نجی اداروں کے مالکان کو موجودہ روئداد سے سبق سیکھ کر آئندہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی ۔انہیں اپنے پاس صوابدیدی گرانٹ رکھنا ہوگا تاکہ وہ بروقت اسے بروئے کار لا سکیں ورنہ انہیں اسی طرح ہزیمت اٹھانا پڑے گا ۔ابھی جون کا مہینہ ہے اسی ماہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بجٹ پیش کرنے جا رہی ہیں ،لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں اور مدارس کے لیے کوئی بڑا پیکج رکھ لیں تاکہ وہ اپنے پاوں پر کھڑے ہو سکیں ۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email