” فنی تعلیم اور نظرانداز ضلع "

اس امر سے بھلا کسے کیسے انکار ہو سکتا ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک،قوم، اور معاشرے کا انتہائی اہم اثاثہ ہیں۔ دنیا میں وہی اقوام معاشرے ریاستیں حتٰی کہ افراد کے وہ گروہ بھی کامیاب رہتے ہیں جو نئی نسل کی تعلیم وتربیّت دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق کرتے ہیں ۔عصری علوم میں فقط رسمی تعلیم ہی شامل نہیں بلکہ ہنر بھی ایک عظیم علم اور ہتھیار ہے  جس کے حصول کیلئے نوجوانوں کی رہنمائی اور ان کیلیے اداروں کا قیام حکومت اور منتخب نمائندوں کا بنیادی اور اخلاقی فرض ہے، مگر بدقسمتی کہیئے یا ستم ظریفی اس معاملے میں ضلع چترال ہمیشہ ہی سے یتیم اور نظرانداز رہا ہے کسی بھی منتخب نمائندے نے صدقِ دل سے اس امر کی طرف توجہ نہیں دی کہ اس محروم ضلع میں بھی پولی ٹیکنیک کالج ہونا چاہیئے۔ ایم ایم اے دور میں گر کوئی معمولی سرا ہاتھ آیا بھی تو بحیثیت قوم یا لیڈر اس کی آبیاری نہ کر سکے آج وہاں دوسرا تعلیمی ادارہ قائم ہے اسے اہل چترال کی عدم دلچسپی کہیں یا شرافت کہ کوئی دوسرا ہمارے منہ سے نوالہ بھی چھین لے ہم اُف تک نہیں کرتے۔ورنہ آج وہی کالج پولی ٹیکنیک سے ترقی پا کر کالج آف ٹیکنالوجی بن چکا ہوتا۔مگر آج  افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا واحد ضلع ہےبلکہ اب تو اضلاع بن چکے ہیں جہاں کوئی بھی سرکاری سطح کا پولی ٹیکنیک کالج نہیں جبکہ کے- پی، کے باقی ہر ضلعے میں ایک یا ایک سے زائد پولی ٹیکنیک کالجز موجود ہیں چترال میں مطلوبہ کالج نہ ہونے کی وجہ سے چترالی طلبہ دوسرے اضلاع کے کالجز میں سیلف فینانس میں داخلہ لینے پر مجبور ہیں کیوں کہ ان کالجز میں چترالی طلبہ کیلیے کوئی کوٹہ بھی مخصوص نہیں  یا پھر پشاور کے دوسرے پرائیوٹ کالجز کا رُخ کرتے ہیں. جو کہ اس علاقے کے طلبأ کیساتھ سراسر زیادتی ہے۔

اب جبکہ سی پیک بھی سر پر ہے پی ٹی آئی حکومت کا رجحان  بھی ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف زیادہ ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے توہمارے ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان وقت کی نذاکت اور موجودہ دور کی ضرورت کو مدنظر رکھتےہوئے اس مسٔلے کی طرف بھی توجہ دیں اور دونوں اضلاع کیلئے ایک ایک کالج کی منظوری دلوانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں نہ صرف میل بلکہ فی میل پولی ٹیکنیک بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

KP- TEVTA ( Khyber Pakhtoonkhwa Technical and Vocational Training Authority)

کے ایم ڈی جناب سجاد علی شاہ صاحب انتہائی مخلص انسان ہیں ۔ اس حوالے سے  ایک ڈی صاحب کا مکمل تعاون کی ذمہ داری میں لیتا ہوں اور منتخب نمائندوں کی ملاقات کی بھی ذمہ داری لیتا ہوں۔ دوسرا چیف منسٹر صاحب بھی ملاکنڈ ڈیویژن کی ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں یہی وقت ہے کہ  چترال کیلئے کسی بھی طریقے سے ان کالجز کی منظوری دلوائی جائے تا کہ مستقبل میں چترالی نوجوان سی پیک جیسے عظیم منصوبے میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور دوسری طرف ان اداروں کے قیام سے بہت سے تعلیم یافتہ چترالی نوجوان ملازمت سے بھی مستفید ہونگے۔

لہٰذا ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان اس مقصد کے حصول کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں تا کہ نئی نسل مستقبل کے اس گیم چینجر منصوبے کیلئے فنی لحاظ سے تیار ہوں اور نہ صرف چترال کی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر بھی اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email