ہو جس سے اختلاف، اسے مار ڈالیئے!

علی شریعتی صاحب سے کسی دوست نے دریافت کیا کہ وہ تمھارے مرغے نے آج صبح بانگ نہیں دی؟ وجہ کیا ہے؟ شریعتی صاحب فرمانے لگے وہ پڑوسیوں نے شکایت کی ، کہ وہ صبح صبح جگا کر انھیں پریشان کرتا ہے۔ اس لیے ہم نے اسے ذبح کر دیا۔ جس طرح کے حالات ہمارے دور حاضر کے ہیں، اس میں ہمیں بار بار مقتدر قوتوں کے ذریعے باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آگر اس معاشرے میں زندہ رہنا ہے ،(میں کسی بھی طور پرسکون زندگی کی بات نہیں کر رہا صرف و صرف زندہ رہنے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں )تو پھر خود کو معذور تصور کرنا ہو گا۔ کانوں کے ہوتے ہوئے آپ کو حس سماعت کی نفی کرنی ہو گی،آنکھوں کے ہوتے ہوئے ہر چیز سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے خود کو نادیدہ جاننا ہوگا، زبان کے ہوتے ہوئے قوت گویائی سے دستبردار ہونا ہو گا ،معاشرے کی ہر بگاڑ سے خود کو لا تعلق رکھنا ہوگا۔ البتہ ایک مخصوص اور واضح کردہ دائرے میں رہ کر آپ سونگھنے اور چھونے کیلئے ناک اور ہاتھوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ خود کو جزوی طور پر معذور کرینگے تو آپ کی سانسوں کی مالا جپتی رہے گی۔ گر آپ نے مرغا بننے کی کوشش کی اپنے حق کیلئے آواز بلند کی یا دوسروں کو ان کے حق کے حصول کے لیے جگانے یا بیدار کرنے کی سعی  کی ،تو پھر جان لیجیئے کہ آپ کا بھی انجام شریعتی صاحب کے مرغے جیسا ہونا یقینی بات ہے کیوں کہ اس ملک میں اٹھنے اور آواز اٹھانے سے سوتے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ یہ امر سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنے سارے سبق اموز واقعات اور خمیازوں کے باوجود آخر یہ کون لوگ ہیں جن کو اپنی زندگی عزیز نہیں جنھیں اپنے خاندانوں کی رتی برابر فکر نہیں بس حق گوئی کے شوق میں مارے جاتے ہیں یا غائب کر دیئے جاتے ہیں اس کے باوجود دوسرے دیوانے ان سے سبق نہیں لیتے اور یوں تاریخ خود کو دھراتی جاتی ہے جبکہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا  مہذب معاشرے کے ہر باسی کا بنیادی حق ہوتا ہے اور جمہوریت کا حسن بھی۔ ہمارے ہاں یہ جمہوریت کی کونسی قسم رائج ہے؟ خدا بہتر جانتا ہے جس میں نہ آپ کو آپ کا حق ملتا ہے اور نہ آپ کسی سے احتجاجاً مانگ سکتے ہیں۔ گر غلطی سے آپ ایسا کچھ کرتے ہیں یا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر انجام ارمان لونی یا ذیشان اور خلیل جیسا ہونا یقینی ہے اور لواحقین کا دکھ اپنے کسی پیارے کے کھونے کا غم ایک طرف انھیں اپنی بقا اور تشخص کے لالے پڑ جاتے ہیں پھر آپ کے والدین اور اولاد کو سب چھوڑ چھاڑ کے صرف اس چیز پر اکتفا کرنا پڑتا ہے کہ بس اپنی اصل تشخص ہی مل جائے باقی حقوق جائے بھاڑ میں، نہ کہ دہشت گرد یا غدارِ قوم کے جھومر کو ماتھے پہ سجائے آنے والی نسلوں کے لیے بطور ورثہ بدنامی کا سند چھوڑ جایئں۔ چونکہ مکار،بیوقوف، لٹیرے ، قاتل اور بدعنوان لوگ تو اس معاشرے میں سینہ تان کر چل سکتے ہیں بلکہ وہ اس خطہ ارض کے حسن کا جھومر کہلوانے کے لائق سمجھے جاتے ہیں اور یہ معاشرہ شارخ جتوئی،راؤ انور،عُزیر بلوچ اور جانے کتنے بااثر لوگوں کی آماجگاہ ہے جو کسی بھی دوسرے معاشرے میں نشان عبرت کے مترادف ہوتے مگر اپنے ہاں انھیں جو پروٹوکول اور عظمت ملتی ہے وہ بھلا ایک عام قانون کی پاسداری کرنے والے محب وطن، ذہین،مثبت سوچ کے حامل اور ملک وقوم کا درد رکھنے والے کی قسمت میں کہاں!

آخر ایسا ہے کیوں؟ ہم منزل کے مخالف کیوں رخت سفر ہیں کیا ہمیں مخالف سمت دوڑایا جا رہا ہے یا کہ ہم خود دوڑ رہے ہیں، دونوں صورتوں میں نقصان کس کا ہے کیا آج یہ گھناؤنا کھیل کھیلنے والے کل خود بچ پائیں گے ؟کیا کل کو اس کا قلع قمع ممکن ہوگا ؟یا پھر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جس میں ہر انقلابی ہر حق پرست، ہر مثبت سوچ وفکر رکھنے اور لب کشائی کرنے والے کی روح قبض کر لی جاتی رہے گی ۔کہیں ہم دوسرے سقوط ڈھاکہ کا اہتمام تو نہیں کر رہے جس کا ہم قطعی متحمل نہیں ہو سکتے۔

ذرا سوچیئے! آخر کب تک۔ ہم آج جس قسم کی جمہوریت میں زندہ ہیں وہ امریت سے بھی بدتر ہے جس میں بیرونی قوتوں سے زیادہ اندرونی محافظوں سے ڈر لگتا ہے۔  بس ذرہ سوچیئے!

رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ

ہو جس سے اختلاف ،اُسے مار ڈالیئے

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email