قصہ میری اداکاری کا

بچپن کے تخیلاتی جہاں میں ایک خواب ہم نے بھی دیکھا تھا۔ ایک چھوٹے شہر کے چھوٹے آدمی نے خواب بڑا دیکھا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب میں نہ صرف فلمیں اور ڈرامے دیکھا کرتا بلکہ نقالی کی بھی کوشش میں ہوتا۔ اس طرح میرے اندر ایک چھوٹا سا اداکار جنم لینے لگا۔ کسی دوسرے اداکار کی جگہ میں اپنے آپ کو کھڑا کرکے دیکھتا تو دل میں ولولے اٹھتے، دماغ شاد ہوتا۔ اداکاری کے اس شوق نے نہ بچپن میں دم توڑا اور نہ ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد یہ آگ ماند پڑی۔ میں نے ہمیشہ اپنے اس رومان پرور خواب کی تعبیر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ میں ہر تیز رو کے ساتھ تھوڑی دور چلا اور راہ نہ پاتا۔ مجھے نہ منزل کا پتا تھا۔ نہ راہبر میسر تھا۔

میں کہیں اور جانا چاہتا تھا۔ زندگی مجھے کہیں اور لے آئی۔ شوق کی تکمیل کے راستے موجود مگر مسدود تھے۔ فلم انڈسٹری کے کتنے دروازوں پہ دستک دی اور اپنی آواز کی بازگشت پا کر لوٹ آیا۔ یادوں کی یہ بیاض کھولتا ہوں تو میری تاریک راتوں میں کتنے ستارے جمگا اٹھتے ہیں۔ مجھ پر ایک بڑے شہر میں ایک در وا ہوا۔ مجھ سے پوچھا گیا کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا ایکٹر بننا چاہتا ہوں۔ وہ ہنس دیے۔ نہ نام۔ نہ حسب۔نہ تعلق اور نہ سفارش۔ میں اپنی نہ شکل و صورت اور دلفریب اداوں سے اداکار لگتا تھا۔ پنڈ کا رہنے والا شہر جا کر دیوانہ وار چلائے کہ میں اداکار بننا چاہتا ہوں۔ اس کو دیوانہ نہ کہیں تو کیا کہیں؟

بہرکیف۔ اداکار تو میں نہ بن سکا مگر فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کا مشاہدہ، مطالعہ اور سمجھنے کی کوشش جاری رہی۔ اس باب میں کچھ نہ کچھ خامہ فرسائی بھی رہی۔ نتیجتاً شوبز کے بڑے ڈائرکٹرز، اچھے پروڈیوسرز اور چوٹی کے اداکاروں کے ساتھ ربط و تعلق رہا۔ جلوہ شوق کے پامال اور گرد سے لپٹے راہوں میں یہ رسم و راہ بھی زندگی کا سرمایہ ہوتی ہے۔

اب تذکرہ ہو جائے ہماری حالیہ اداکاری اور وہ بھی پولیس کے رول کی۔ آن اے لائٹر نوٹ۔ فرائڈ نے کہا تھا کہ دبی خواہشیں مرتی نہیں ہیں بلکہ ایک بد صورت و کریہہ انداز میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ہماری اداکاری کا ظہور جب پولیس انسپکٹر کے روپ میں ہوا تو تماشا بن گئے۔ ویسے ہیرو تو مجھے کوئی کاسٹ نہیں کرتا۔ یہی سپورٹیو رول سہی۔ میرے لیے اس ڈرامے میں کوئی بھی رول ملنا باعثِ افتخار ہے۔ ایک طرف یہ بہت بڑا ڈراما ہے تو دوسری طرف یہاں پاکستان کے ماہان اداکار کام کر رہے ہیں۔

میرے پیشِ نظر ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ میں نے اپنے خواب کے تعاقب میں عمر گنوا دی۔ آج کتنے میرے شہر کے جواں ہوں گے جو فلمی دنیا میں انٹر ہونا چاہتے ہیں۔ میں رول ماڈل تو نہیں مگر ایک مثال تو بن سکتا ہوں۔ کسی نوجواں کو ایک شناسا راستہ اور مانوس رہبر تو مل سکتا ہے۔ اس چھوٹے سے پولیس انسپکٹر کے رول کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ چترال کے لوگ کسی چیز کے مثبت پہلوؤں کو نہیں دیکھتے بلکہ منفیت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ہمیں ہر صورت کسی کی راہ میں روڑے اٹکانا، ٹانگیں کھینچنا اور پروپیگنڈہ کرنا ہوتا ہے۔ میں ادکاری یا شوبز انڈسٹری کے حوالے سے کسی حوصلہ افزائی کی کیا توقع رکھوں جب کہ بطور مدرس میری راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئیں۔ماضی کو کریدنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے بہت کچھ دیکھا اور سہا ہے، حال ہی میں ہم نے تعلیم کے حوالے سے ایک بڑا اچھا اقدام اٹھایا تو مخالفیں کا ایک ٹولہ پیچھے پڑ گیا۔ وٹس اپ پر ایک دوسرے کو پیغام بھیج کر اس اقدام کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ میرے پاس وہ اسکرین شاٹس موجود ہیں۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ہم تعلیم کے حوالے سے بھی اگر کچھ کریں تو قدم قدم پر کانٹوں کے جال بچھائے جاتے ہیں۔ ہم نے نہ پہلے کبھی ان اوجھے ہتکھنکنڈوں سے خائف ہو کر اپنا کام چھوڑا ہے اور نہ اب چھوڑیں گے۔

شیکسپئر نے دنیا کو ایک اسٹیج اور انسانی زندگی کو ڈرامے سے تشبیہ دی ہے کہ یہاں ہر آدمی آتا ہے اور اپنا کردار ادا کرکے چلا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کا یہ ڈرامہ سات ادوار پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ کبھی ضدی بچہ ہوتا ہے تو شباب کی مستی میں سہانے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ یہ عمر ڈھلتی ہے تو یہ ایک سپاہی کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ شیکسپیر کے الفاظ میں:

A soldier,
Full of strange oaths, and bearded like the pard,
Jealous in honour, sudden and quick in quarrel,
Seeking the bubble reputation
Even in the cannon’s mouth.

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email