تورکھو کی پہلی قابل فخر قانون دان بیٹی

معاشرے میں عورت اور مرد گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں جن میں سے کسی ایک کی بھی احساس ذمہ داری اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نظام زندگی کو درہم برہم کر سکتی ہے۔ بہترین معاشرے کے وجود کیلیے دونوں کا حصول علم سے وابستگی ازحد ضروری اور لازمی ہے۔جس کے لیے محنت اور لگن کی بنیادی شرط پر ایک معاشرہ اپنی معاشی معاشرتی اور سماجی اقدار میں نکھار و وقار پیدا کر سکتی ہے۔لیکن ایک ایسے معاشرے اور علاقے جہاں تعلیم کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور نامساعدحالات کی وجہ  سے بیشتر مرد  بھی حصول علم سے محروم رہ جاتے ہیں ،وہاں کسی خاتون کی مشقت و تکالیف، معاشی ومعاشرتی مشکلات اور ناموافق حالات کے باوجود کامیابی سمیٹتے ہوے کسی مقام تک پہنچنا یا اپنی مراد پا لینا نہ صرف قابل فخر امر ہوتا ہے بلکہ اپنے علاقے کیلیے  بھی سود مند تصور کیا جاتا ہے۔

سرزمین چترال کو رب کائنات نے جہاں بے شمار قدرتی دولت سے مالا مال کیا ہے، وہاں مختلف پرعزم، محنتی، ذہین، جفاکش، حوصلہ مند اور قابل فخر ماں ،بہن بیٹیوں سے بھی نوازا ہے۔ جو مختلف قسم کے مشکل حالات اور ناموافق معاشی و معاشرتی، موسمی اور سماجی صورت حال کے باوجود ہر میدان میں ملک اور علاقے کا نام روشن کرتے ہوے اعلی ٰمقام پاتے آ رہی ہیں۔ان قابل فخر، پرعزم اور حوصلہ مند بیٹیوں میں سے ایک نام رخسانہ سید کا بھی ہے جو چترال کے انتہائی دور افتادہ گاؤں کے سخت ترین حالات کیساتھ مردانہ وار مقابلہ کرتی ہوئی چترال کے دیگر خواتین کیلیے ایک مثال بنی۔ جوکہ نہ صرف علاقے بلکہ پورے چترال کیلیے باعث فخر ہے۔ رخسانہ سید چترال کے علاقے تورکہو کے دور افتادہ گاؤں ریچ میں سادات گھرانے کی نامور شخصیت سید حسن ولی شاہ کے گھر پیدا ہوئی۔سادات گھرانے کے علم دوست والدین کی بدولت ابتدائی دینی و عصری تعلیم گھر سے حاصل کرنے کے بعد مزید عصری علوم کے حصول کیلیے بڑے لاڈ پیار کیساتھ آغا خان پرائمری سکول ریچ میں داخلہ کر دی گئی۔ اس دوران والدین کی بھرپور توجہ اور اساتذہ کی انتھک محنت اور  خود کے شوق وحوصلے اور علمی جذبے سے سرشار رخسانہ سید پرائمری اور پھر مڈل تک کی تعلیم اعلیٰ کارنمبروں  کیساتھ مکمل کرتے ہی آغا خان ایجوکیشن سروس چترال میں بطور ذہین اور قابل بچی نمایاں ہوئی جس کی وجہ سے مزید میٹرک تک کی تعلیم کیلیے آغا  خان ایجوکشن سروس چترال کی مکمل مالی تعاون اور معاونت کی یقین دہانی پر آغا خان ہائی سکول بوزند تورکھو میں داخلہ کیا گیا۔جہاں تورکھو کے عظیم نام اور مشہور و معروف  شخصیت اور اپنی نانا سید خان کے علمی و دوستانہ گھریلو ماحول کی بدولت اور اپنی بے مثال حوصلے اور لگن سے اعلیٰ اور نمایان کارکردگی  کا مظاہرہ کرتی ہوئی میٹرک تک کی تعلیم پہلی پوزیشنز کیساتھ پاس کر لی۔اس دوران والدین کی اعلیٰ رہنمائی اور اساتذہ کی بے مثال محنت اور اپنی بہترین  کارکردگی اور لگن کیوجہ سے رخسانہ سید کی علمی تشنگی روز بروز بڑھتی گئی۔ بیٹی کی علمی دلچسپی، خواہش اور شوق و ولولے کو دیکھتے ہوے مسائل و مشکلات  کے باوجود اس ہونہار بیٹی کو مزید تعلیم و تربیت کیلیے  پرل ڈگری کالج بونی بھیج دیا گیا۔اس دوران مذکورہ ہونہار بیٹی نے مزید لگن اور حصول علم کے جذبے کیساتھ نمایاں نمبروں سے ایف ایس سی  کی اور بعد آزاں چترال کالج آف ایجوکیشن   چترال  سےبی ایس سی کرنے کے فورا بعد اسلامیہ یونیورسٹی پشاور  سے     سند حاصل کی۔اس طویل علمی سفر کے دوران چترال کی اس بیٹی کو مختلف سماجی،معاشی و معاشرتی مسائل و مشکلات کے علاوہ معاشرے میں عورت پر ڈھائی جانے والے مظالم و تکالیف کو دور و نزدیک سے دیکھنے کا بھرپور موقع ملا اور ہر مرحلے و موقع کو بحیثیت صنف نازک اپنے لیے ایک ازمائش و امتحان سمجھتے ہوئے دیکھتی اور یاد کرتی رہی۔جس کی خاطر انہوں نے عملی طور پر خواتین کے حقوق کیلیے لڑنے اور مردوں کے سامنے خواتین کیلیے ڈھال بننے کے واسطے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے اور مستقبل میں خواتین کے حقوق کیلیے لڑنے کے مصمم ارادے کیساتھ اسلامیہ لآ کالج پشاور میں داخلہ لیکر چند سالوں کے اندر ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر لی۔ اور یوں گزشتہ سال پشاور ہائی کےکورٹ لآئر بنچ میں بحیثیت پیشہ ور خاتون قانون دان شامل ہوئی۔اور اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کیساتھ ملک و قوم کے نادار اور مظلوم ماں، بہن، بیٹیوں کو جائز حقوق دلوانے کی خاطر مختلف قسم کے پیچیدہ کیسسز گزشتہ ایک سال سے بلا معاوضہ لڑتی آ رہی ہے۔ ہم اپنی اس قابل فخر بیٹی کی مزید کامیابی و کامرانی اور سلامتی کیلیے دعاگو ہیں۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email