ہاں تو کیسا تھا خالد بن ولی(مرحوم)

آہ!میکدہ دھیرے دھیرے اپنی رونق کھو رہا ہے۔بادہ خوار ایک ایک کرکے خاموشی سے کنارہ کش ہوئے جا رہے ہیں۔زندگی اپنی تمام تر مسرتوں کے باوجود سر بہ زانو ہے کہ اس کے چہرے سے کچھ تارے دست قضا نے نوچ لیے ہیں۔زندگی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود ماتم کناں ہے۔ کہنے کو تو خالد بھائی چترال کے معروف قانون دان عبدالولی خان عابد صاحب کا بیٹا تھا۔مگر یہ اس کا کل تعارف ہوتا تو تشنگی رہتی۔وہ اپنی شخصیت میں خود اپنی مثل تھے۔ایک ملنسار،خوش باش،بااخلاق،چھوٹے بڑے کے آگے پیچھے جانے والے۔عجز و انکساری کا مجسمہ،خوب صورت اور خوب سیرت کا حسین امتزاج اگر کوئی تھا تو وہ خالد بن ولی تھا۔پھولوں کی رنگینی اور خوشبو،سردی کی سرمئی آفتاب اور چاند کی ٹھنڈی بھری چاندنی کو اگر کوئی انسانی نام دیا جائے تو وہ بلاشبہ خالد ہی ہوسکتا ہے۔ خالد کے سینے میں ایک خوبصورت دل دھڑکتا تھا۔کثافتوں سے پاک احساس سے مالامال دل،جس کا اظہار اور عکس اس کی ذاتی زندگی سے لیکر اس کی شاعری تک ہمیں دیکھائی دیتے ہیں۔

سب کو یاد ہوگا کہ سنوغر میں سیلاب کی وجہہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اور ایک انسانی بحران پیدا ہوا تھا۔ہم کالج کے کچھ طالب علموں نے چندہ مہم کا آغاز کیا۔کیمپ کے لیے اتالیق بازارکا انتخاب ہوا۔دوست آتے گئے اور قافلہ بڑھتا گیا۔کچھ دو گھنٹے بعد ہم نے دیکھا کہ خالد بھائی ہنستے مسکراتے نمودار ہوئے اور ہماری مہم کا حصہ بنا۔ہمارے چترال میں مخیر نہ ہونے کے برابر ہیں۔جو ہیں وہ بھی کبھی کبھار ہی اپنی تجوریوں کو کھنگالنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔یہ احساس دو مواقع پر دوچند ہوا ایک یہی سنوغر کا المیہ اور دوسرا الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام”کفالت یتیم“پر۔خالد بھائی نے ہم سب کو ساتھ لیا اور جھولی پھیلاؤ مہم شروع کی۔جھولی پھیلانے میں خود خالد بھائی نے پہل کی۔ہم نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر تب بھی کوئی شکن نہیں پڑتی تھی جب کوئی انکار کرتا تھا۔عام انسانی سطح پر کاملیت کا تصور ممکن نہیں کہ یہ انسانی بساط سے باہر کی چیز ہے۔مگر انسان اس درجے پر متمکن ہونے کی تمنا دل میں لیے شکم مادر سے اس دنیا میں آتا ہے۔پھر وہ دنیا میں ان تمام ذرائع کو بطور ایک سیڑھی کے استعمال کرتا ہے جس پر زینہ بہ زینہ چڑھ کر وہ کاملیت کے مقام تک پہنچنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔انسان کا کل نچوڑ بھی یہی ہے کہ اس کو سعی و جہد کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔خالد بھائی اسی کا ایک استعارہ ہیں ہم دو الگ نظریاتی دھاروں میں بہنے والے انسان ہیں۔مگر جب بھی ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کا موقع ملا تو اس کا سامنا کر کے میرے اندر کی ساری تلچھٹ خود بخود نیچے بیٹھنے لگتا تھا۔وہ اختلاف میں مسکرانا جانتے تھے یہی اس کی شخصیت کا وہ باکمال وصف ہے جو میں نے بہت کم لوگوں میں پایا۔

وہ حلیف و حریف سے کہیں آگے کا بندہ لگتا تھا۔شہرت اس کے گھر کی باندی تھی۔سونے کا چمچہ منہ میں لیے وہ پیدا ہوا۔مگر ہم نے کبھی بھی اور کہیں بھی اس کو اس رعونت میں مبتلا ہوتا ہوا اور احساس دلاتا ہوا نہیں پایا۔وہ چاہتا تو اپنے باپ کا نام پر ہی اپنا قدکاٹھ بڑھا سکتا تھا۔مگر اس نے حقیقی زندگی جینے کے راستے کا انتخاب کیا۔اور سچ ہے کہ دنیا خود اس کی قدموں میں آگری چترال اگر ایک شائستہ،مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کا چہرہ کہلاتا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ خالد بھائی پھر چترال کا حقیقی چہرہ کہلائے گا۔برادر خالد چترال کا ایسا مشترکہ اثاثہ تھا جس کو قضاوقدر نے وقت سے پہلے ہی ہم سے چھین کر ہم کو تہی دست کردیا۔اس متاع بے بہا جو موت کی منڈی میں خرید لیا گیا۔حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کے الفاظ مستعار لوں تو خالد جیسے لوگ ہی زمین کا نمک ہیں۔اس کا ذائقہ ہیں۔اور کچھ دن پہلے چترال کی سرزمین اپنے ذائقے سے محروم ہوگئی۔ایک تابندہ شخص جس کو بہت جینا تھا۔جسے زندگی کی جبین پر سورج کی مانند چمکنا تھا۔۔غروب ہوگیا۔ آہ۔میکدہ دھیرے دھیرے اپنی رونق کھو رہا ہے۔بادہ خوار ایک ایک کر کے خاموشی سے کنارہ کش ہوئے جا رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ خالد بھائی کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے اور

Print Friendly, PDF & Email