ماچس ہوگی آپ کے پاس؟؟

برٹرینڈرسل سے منسوب ایک قول ہے۔”میں چاہتا ہوں کہ میری نگاہ اللہ کی نگاہ جیسی ہوجائے۔نہ لاگ رہے نہ لگاؤ۔“بظاہر ایسا ہونا ممکن نہیں۔کیونکہ انسان پسند نا پسند کا مجموعہ ہے۔مگر ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو اس اُلوہی صفت سے متصف ہونے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ اس دور کو سوشل میڈیا خاص کر فیس بُک(کتابِ چہرہ) سے معنون کیا جائے تو یہ ہر گز مبالغہ نہیں ہوگا۔کیا خُرد و کلاں،کیا جاہل کیا عالم،کیا امیر کیا غریب،سب سماجی روابط کے بندھن میں باندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔پچھلے زمانے میں ”منکرین محبت“ کے ٹھٹھے اُڑائے جاتےتھے کم و بیش آج کل یہی معاملہ ”منکرین فیس“ بک کے ساتھ برتا جاتا ہے۔سوشل میڈیا ہی سہی معنوں میں لوگوں کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے۔ذاتی لحاظ سے مجھے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے کافی عرصہ ہوا ہے اور اس کے استعمال میں خاصا متحرک واقع ہوا ہوں۔اور یہ ”جوش بلا خیز“ کم ہونے میں نہیں آرہا۔سیکھنے،سیکھانے،دیکھنے اور محسوس کرنے،بہت سی رنگا رنگی اور بوقلمونی لیے ہوئےیہ ایک الگ دنیا ہے۔سوشل میڈیا میں ہماری قوم کی نفسیات اور حسیات پنہان ہیں۔ان کی ترجیحات کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔۔صاحب عقل و اہل غوّاص کے لیے یہ ایک بہت بڑا سمندر ہے جس میں ان کو گوہر مقصود بھی مل جاتا ہے اور خالی سیپیاں بھی مقدر ٹھہرتی ہیں۔

اس طلسماتی دنیا میں ایک عرصہ ہاں!!ایک طویل عرصہ گزرا۔۔اس عرصے میں کافی کچھ سیکھنے کو ملا اور کافی بہت کچھ دیکھنے کو بھی ملا۔۔الٹی کھوپڑی والوں سے بھی واسطہ پڑا اور معتدل مزاج لوگوں کی صحبت بھی میسر رہی۔۔۔رائے دینے اور اختلاف میں شائستگی کا دامن تھامے رکھنے کے گُر سیکھے،تربیت لی ۔۔خود کا تزکیہ کیا۔۔اور ہمارے معاشرے کی وبائے عام یعنی خود کو قابلیت کا ماؤنٹ ایورسٹ سمجھنے کے مرض سے خود کو دور رکھا۔۔۔اس میں دو طرح کے لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑتارہتاہے ایک وہ جو معتدل مزاج لوگ ہوتے ہیں دوسرے وہ جو الٹی کھوپڑی کے مالک ہوتے ہیں میرے آج کا موضوع یہی خودستائش کا مارا طبقہ ہے۔۔ ان کا المیہ یہ ہوتاہے کہ اپنی دانست میں یہ خود کو وقت کا ”افلاطون“ سمجھتے ہیں۔۔غالبًا اسی قماش کے لوگوں کے بارے میں "ابن انشا” نے کہاتھا کہ جن سے اب بھی ملکہ نور جہان کے حالات پوچھے جائیں تو ملکہ ترنم نور جہان کے حالات بتاتے ہیں”جب یہ حالات حاضرہ پر اپنا کوئی مؤقف پیش کرنے لگتے ہیں تو بعینہ اس چوہے کی مثل ٹھہرتے ہیں جس کو جب نشہ چڑھے تو اس سے نچلا بیٹھا نہیں جاتا اور وہ اپنی دم پہ کھڑے ہوکر کہتاہے”اوئے کدھر ہے بلی” اردو مزاحیہ  ادب کے صاحب طرز ادیب ابن انشا نے اپنی مشہور تصنیف”اردو کی آخری کتاب”میں آسمان کے موضوع پر بڑے اچھوتے اور مزاحیہ انداز میں مضمون لکھاہے۔۔یہ بھی اس طبقے کے بارے میں ہے۔۔لکھتے ہیں ”ایک زمانے میں آسمان پر فرشتے رہاکرتے تھے۔پھر ہماشما جانے لگے جو خود نہ جاسکتے تھے ان کا دماغ چلا جاتاتھا۔یہ نیچے زمین پر دماغ کے بغیر ہی کام چلاتے تھے۔بڑی حد تک اب بھی یہی صورت ہے“ آئیے کچھ مکالماتی پیرائے میں معاشرے کے ہر طبقے میں پائے جانے والی اس عجیب مخلوق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں

شاعر! ماچس ہوگی آپ کے پاس؟

کیوں؟

شاعر!

میں نے باقی تمام شاعروں کے دیوان جلانے ہیں۔(یہی کالم نگاروں کے متعلق بھی کہا جاسکتاہے)

ایک سیاستدان!        ماچس ہوگی آپ کے پاس ؟

کیوں؟

سیاستدان! میں نے بقیہ سیاسی پارٹیوں کے منشور کو آگ لگانی ہے۔

ایک مولوی!

آپ کے پاس ماچس ہوگی؟

کیوں۔؟

مولوی!مولویوں سے اختلاف کرنے والوں کونذر آتش کرنی ہے۔

سیکولر! ماچس ہوگی آپ کے پاس ؟

کیوں؟

سیکولر!معاشرتی علوم اور اہل مذہب کو آگ لگانا ہے ؟

ایک بی جمالو!   ماچس ؟ کیوں؟

بی جمالو!        میں نے بُھس میں چنگاری ڈالنی ہے

سیاسی کارکن !ماچس ہوگی تمہارے پاس ؟

کیوں؟

سیاسی کارکن! میں نے خود کو ہی جلانا ہے۔

”تو اے آل فیس بک“ تمہارے لیے اس جہان رنگ و بو میں بہت کچھ ہے جو تم یہاں سے حاصل کر سکتے ہو۔ کوئی ماچس پکڑا دے۔۔۔میں نے بھی بُھس کو آگ دیکھانی ہے

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email