استاد محترم میں شرمندہ ہوں!

میں نے جب اپنی ڈائری اس کے آگے رکھی اورکچھ تاثرات قلمبند کرنے کی استدعا کی تو اس نے ایک طویل وقفہ لیا..میں نے مخل ہونا مناسب نہیں سمجھا صرف اس کے چہرے پر بدلتے تاثرات کو پڑھنے لگا..میرے سامنے ایک بھرپور زندگی گزارنے والا ایک ایسا شخص بیٹھا تھا جس کی کہی بات کا حرف حرف آب زر سے لکھنے لائق ہوتاتھا..میں نے گلا کھنگارا تو اس نے نظر اٹھائی اس کی آنکھوں میں وہ چمک نظر آئی جس میں زندہ دلی واضح طور پر چھلکتی دیکھائی دے رہی تھی.یہ علامت اس کی خاص کیفیت کا پتہ دیتی تھی جب بھی اسے کوئی اچھی اور سنہری بات یاد آجاتی تو اس کی حالت دیدنی ہوتی اس وقت بھی اس کی یہی کیفیت تھی..میں نے صرف مسکراہٹ پر اکتفا مناسب سمجھا اور اس نے قلم اٹھایا اور لکھنے لگا…تحریر کیا تھی گویا دل نکال کے اس نے ڈائری میں رکھ چھوڑا تھا..بعض لوگوں کو اللہ کی طرف سے یہ خصوصی ودیعت ہوتی ہے کہ وہ ایک جملے میں معانی ومفہوم کا سمندر بہا دیتے ہیں لفظ کیا تھے جن کو آج بھی پڑھ کر میں وجد میں آتاہوں..اور یہ اس شخص کا لکھا ہوا جملہ تھا جس نے زندگی کے ہر زیروبم کو سہا تھا جس نے زندگی کی ہر بہار اور خزان کی خوب سیر کی تھی کبھی زندگی کو اس نے اور کبھی زندگی نے اس کو خوب آزمایا تھا یہ الگ بات کہ کون بھاری واقع ہوا اس کا اس نے کبھی کھل کر جواب نہیں دیا وہ میرا استاد ہی نہیں میرا مرشد بھی تھا اس نے میری زبان کی گرہیں ہی نہیں کھولی تھیں بلکہ ذھن کے دروازے بھی وا کئے تھے اچھا سوچنا سکھایا تھا اور اچھا دیکھنے کا گُر بھی بتایاتھا..اس نے ایک توقف کے بعد رعشہ ذدہ ہاتھوں سے ڈائری میری طرف بڑھایا میں نے اس وقت ایک سطحی نظر اس تحریر پر ڈالی اور دوسری باتوں میں خود کو مصروف رکھا..پھرایک دن میں ڈائری میں کچھ یادیں ٹٹولنے کی کوشش کررہاتھا تو ایک الگ سے صفحے پر اڑی ترچھی انداز میں ایک تحریر پر نظر پڑ گئی اس لمحہ وہ جملہ اس قدر پیارا لگا کہ سرشاری کی کیفیت پیدا ہوگئی لکھا تھا "زندگی کو بھرپور جینا چاھتے ہو تو خود کومکمل اللہ کے سپرد کرو وہ پوری دنیا ہی نہیں پوری آخرت بھی سنوار دے گا بندہ ایک دفعہ اللہ کا ہوجائے تو اللہ سب کو اس کا کردیتاہے.اللہ کی محبت سے سکینت کا حصول آسان ہوجاتاہے تو بیٹا اللہ کا ہوجاؤ اور دنیا کی نیرنگیوں سے دور ہوجاؤ گے..یاد رکھو سب کچھ تیرا ہوتے ہوئے بھی اگر اللہ تمہارا اور تم اس کے نہ ہوئے تو تم دنیا کا کنگال تریں شخص ہو اور قابل رحم بھی کہ ایک گوہر سے خود کو محروم رکھے ہوئے ہو” میں تحریرکے آئینے میں سرتاپا خود کا جائزہ لینے لگا اور خود احتسابی سے یہ پتہ چلا کہ میں تو تہی دست ہوں اس اصول سے میری زندگی کوسوں دور کھڑی ہے مجھے اپنا آپ واقعی کنگال لگا اور قابل رحم بھی..یہ تحریر میرا استاد بن کر میرے سامنے گویا گھڑی ہوگئی اور مجھے لگا کہ میں نے واقعی میں کوئی زندگی جیا ہی نہیں مگر اس تحریر کی چمک اور دھنک اب بھی برقرار ہیں میری تمنا ہے کہ میں اس تحریر کے رنگوں میں رنگا جاؤں اس تحریر اور اس اصول کی چمک سے اپنی زندگی کو سنوار لوں…مگر استاد محترم میں شرمندہ ہوں میں آج تک ایسا نہیں کرسکا اور اس گوہر نایاب سے خود کو محروم رکھا..ہاں استاد محترم میں شرمندہ ہوں

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے