تحریک اسلامی ہی کیوں؟

آج کا دور ابلاغیاتی دور کہلاتا ہے ایسا کہنے والے اپنی دانست میں ٹھیک ہی کہہ رہے ہونگےاور یہ مسلمہ حقیقت بھی ہے کہ ذرائع ابلاغ نے ہماری زندگی،تاریخ،تہذیب، پسند نا پسند طے کرنے کا پورا اختیار حاصل کر لیا ہیں۔یہاں پر ہر طرح کے رطب و یابس کو مستند مانا جاتا ہے اور ایک ایسی نسل یہاں پر متحرک ہے جس نے صرف”سید محمد پرویز مشرف”کا سیاسی دور دیکھ رکھا ہے۔مگر عقلی معراج پانے کے یہ دعویدار”کتاب چہرہ”میں کچھ دیکھ کے، بجائے کتابوں سے رجوع کریں۔۔وہ "بابا”کے آشرم میں جاتے ہیں۔۔بس وہیں سے دوسروں کو کیچڑ آلود کرنے کا کارنامہ سرانجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ایسا لگنے لگا ہے کہ نظریاتی سیاست اور علمی اختلاف اب سرزمین پاکستان سے اٹھا لی گئی ہو۔اب نیا پاکستان بنانے والے دوسروں کے سرہانوں میں جھانکے”بانی نیا پاکستان” کی تصویر تلاشتے پھرتے ہیں۔

دنیا میں اسلام کے احیاء کے لیے جتنی بڑی تحریکیں چلائی گئی ہیں۔ ان میں پاکستان کی تحریک اسلامی کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔متحدہ ہندوستان میں تحریک اسلامی کی بنیاد1941ء میں رکھی گئی تھی۔اپنی ابتداء سے  منہج کو قرآن و سنت پر رکھا گیا تھااور اس سے چار سال پیشتر 1936 میں جب برصغیر پاک و ہند میں ترقی پسند تحریک کا آغاز کیا جارہاتھا تو سب نے اس کی خوب آؤ بھگت کی۔مگر بعد میں جو نظریاتی کشمکش بپا کی گئی اس کا حال ان خفیہ مہمات سے عیاں ہے جو اس تحریک کے باطن سے پھوٹ پڑی تھیں۔ملک کے اندر کئی طرح کے”نظریاتی فتنے” پھن پُھلائے سماج میں اپنا زہر منتقل کیےجارہے تھے۔اس وقت مسند ارشاد پر متمکن معاشرے کو دستار پہنانے والوں کو اس  کا احساس تھا ہی نہیں کہ نظریاتی کشمکش ہوتی کیا ہے۔ان کا پورا زور اپنی صفوں میں ہی کچھ لوگوں کو بدنام اور کافر ٹھہرانا رہ گیا تھا۔

تحریک اسلامی اپنے آغاز سے ہی دینی،سماجی،سیاسی،تہذیبی اور نظریاتی دھاروں کو ساتھ لیکر چلی ہے۔اس لیے اس کے خلاف بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔جو تاریخ میں ایسی تحریکوں سے نمٹنے کے لیے کئے جاتے رہے ہیں۔ان کی تکفیر کرائی گئی۔ ان کے کردار پر کیچڑ پھینکا گیا۔ان پر پابندی لگائی گئی۔ان کی پوری قیادت کو اسیر رکھا گیا۔۔اُس وقت بھی مخالفین تحریک سے وابستہ افراد کے سرہانے کے نیچے جھانکتے پھرتے تھے جو آج کل نیا پاکستان بنانے والوں کا وطیرہ ہے۔

پاکستان اگر مذہبی اور نظریاتی حوالے سے آج مستحکم ہے تو وہ سب تحریک اسلامی کی مرہون منت ہے۔۔چاہے وہ کمیونزم اور سیکولرازم کا علمی انداز میں محاکمہ ہو یا انکار حدیث اور قادیانیت کی سرکوبی۔تحریک اسلامی نے اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی اور احسن طریقے سے نبھائی ہے۔۔آج کل”نظریاتی سیاست”کا بیانیہ معاشرے کے لیے اجنبی بنتا جارہاہے جس کی وجہہ سے سیاسی بونوں اور سیاسی نمونوں کی ایسی کھیپ تیار ہورہی ہے جن کے ہاں کوئی اقدار کوئی تہذیب کوئی اصول موجود ہی نہیں۔شاید وقت آچکا ہے کہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیا جائے۔

Print Friendly, PDF & Email