اردو ادب میں نئی جہات کا سفر

ارسطو نے کہا تھا، ابن عربی نے کہا تھا۔۔اردو ادب ایک طویل عرصہ تک اس گھن چکر میں پڑا رہاہے کہ وہ جائے تو کہاں جائے۔اپنے فنی اور فکری سفر میں وہ کبھی ارسطو کے پلے باندھا نظر آتا ہے تو کبھی ابن عربی کی فلسفیانہ بھول بھلیوں میں آدھ موا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اس کھینچاتانی میں پھر ایسا ہوا کہ حسن عسکری فرانسیسی ادب کی کوہ پیمائی کے بعد جب اپنی ادبی سرزمین کی طرف واپس لوٹا۔تو اس نے اس ملغوبہ ذھنیت کے زیراثر تخلیق شدہ ادبی فضا میں گھٹن محسوس کیا۔سلیم احمد اور عسکری صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے دوسروں کی طرح ان حالات سے یا ادب پر قابض مخصوص مافیا کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ کئی سوالات اٹھائے اور یہ سوالات اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔اس موضوع پر عسکری صاحب اور سلیم احمد کے مضامین پڑھنے لائق ہیں۔ اردو ادب میں دو ایسے ادیب ہیں جن کی شرافت ان کے اسلوب تحریر میں رچی بسی ہے۔مولانا حالی اور دوسرے فیض احمد فیض، اگرچہ دونوں کا طبعی میلان اور افتاد طبع ایک دوسرے سے جْدا جْدا ہے۔ یہ دو الگ ادبی اور نظری دھاروں میں بہنے والے ادیب تھے۔ان میں واحد قدر مشترک اگر کچھ ہے تو وہ”ذھنی مرعوبیت”ہے۔مولانا حالی تو مغرب کے معاملے میں اس حد تک دل پھینک ثابت ہوئے تھے۔کہ تعجب ہوتا ہے جب بھی وہ یہ کہتے ہیں”حالی اب آؤ پیروی مغرب کریں۔ ہمارے اردو ادب پر یبوست کا ایک طویل دور گزرا ہے جس میں ادب دو جملوں کے درمیان پھنسا نظر آتا ہے۔ایک طبقے کا ذھنی اور فکری پڑاؤ”ارسطو نے کہا تھا”کی حد تک تھا۔دوسرا طبقہ”مارکس نے فرمایا تھا”جیسے پٹاخے پھوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے لٹریچر میں ایسے مقامات بھی آتے ہیں۔جن کو پڑھ کر دونوں کے اس جھکاؤ میں اتنی شدت محسوس ہوتی ہے۔ایسا لگنے لگتا ہے کہ وہ مغربیت کو فروغ نہ پاتا دیکھ کرشاید اپنی جان ہی کھو بیٹھیں۔مولانا حالی اور سرسید کے ہاں مغرب سے مرغوبیت ہر دو لحاظ سے اتنی گہری ہے کہ وہ مشرق کو ہر زاوئیے سے مغرب میں ڈھلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ درجہ بالا شعر کی گونج ان کی ہر تحریر اور سوچ کے ہر زوائیے میں سنائی دیتی ہے۔ میری رائے میں اسے سرسید احمد خان کی ہم مشربی کا نتیجہ سمجھیں یا حالات کا جبر بہرحال اردو کے یہ دو ذرخیز ذہن مغربیت سے بہت زیادہ متاثر ہو گئے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی تخلیقیت پس منظر میں چلی گئی۔ اگرچہ علمی اور فکری حلقوں میں ‘‘دبستان سرسید اور ان کے کارنامے’’ ہمیشہ موضوع بحث رہے ہیں۔ جن میں خوب داد و تحسین دی جاتی رہی ہے۔ مگر ایک خاص مرحلہ میں اردو ادب اور اردو تنقید سوچ اور تخلیقیت کے ایک ایسے مصنوعی بحران سے دوچار ہوگئے تھے کہ لگنے لگا تھا کہ اردو ادیب شاید نیا کچھ سوچنا بھول گیا ہو۔ ان کی تخلیقیت سسکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ ان کے ہاں سوچ کا کوئی نیا در وا نہیں ہوتا تھا بس ادیب کی حیثیت مجاور کی سی رہ گئی تھی۔ یہ ایک مخصوص دور سے متعلقہ باتیں ہیں۔ ادب میں حسن عسکری اور سلیم احمد کی ‘‘آمد’’ کوئی معمولی ارتعاش نہیں ہے۔ ان دونوں نے صحیح معنوں میں مشرق و مغرب میں بیسویں صدی کے مزاج، ادبی، تہذیبی، اور معاشرتی بدلاؤ کو نہ صرف یہ کہ شعوری سطح پر سمجھا بلکہ انھوں نے ایک ایسے فکری دبستان کی بنیاد رکھ دی جس کے بارے میں بجا کہا جاسکتا کہ وہ سوچ کا عَلم تھامے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ حسن عسکری اور سلیم احمد کی نقد ہی کا کمال ہے کہ ہمارا ادب اس جھمیلے سے باہر آچکا ہے جب سوچنے والوں کی ہر سوچ اور ہر قول ‘‘لارڈ میکالے نے کہا ہے’’ سے شروع ہوتا تھا۔ اب حالات وہ بھی نہیں رہے کہ مشہور ادیب احمد ندیم قاسمی کی طرح ‘‘مجھے خدا کی قسم انسان ہے عظیم’’ کہنا شروع کیا جائے۔۔۔ مشرقیت اور مشرقی آدرشیں ادبی سطح پر ہو یا سماجی اور تہذیبی سطح پر ان کا احیاء حسن عسکری اور سلیم احمد کرچکے ہیں۔ ہمارے ہاں سوچنے والوں کا ایسا معتدد بہ طبقہ موجود ہے جو ‘‘حلقہ سرسید و حالی کا مغرب کے ساتھ رومانس’’ کی مختلف پرتین سامنے لانے کی کامیاب کوشش کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافی عرصہ سے ہمارا ادب چاہے وہ تنقیدی ہو شاعری سرخ اور مادہ پرستوں میں گِھر کر مرجھا چکا تھا۔ ان تمام بکھیڑوں میں حسن عسکری اور سلیم احمد کی فکری کاوشیں اور ادبی تخلیقات زندگی کا استعارہ بن کر سامنے آتی ہیں۔ اپنی نقد سے اپنی تخلیقات سے ان دونوں نے ادب میں زندگی کی ایک نئی لہر پیدا کی ہے۔۔ اگرچہ اس کے بعد بھی نیا کچھ پڑھنے اور سننے کو آنکھ اور کان ترس گئے تھے مگر جاوید احمد صاحب نے تالاب میں پتھر پھینک کر اس جمود میں ارتعاش کا سبب ضرور بنا ہے۔مگر کرنے کو اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email