بولو کہ صبح حشر کی تمہیدکچھ تو ہو

آپ میں سے ہر کسی نے نئی انڈین فلم”ہاف گرل فرینڈ”ضرور دیکھی ہوگی۔اس فلم کا مرکزی کردار کون ہے اور کہانی کیا ہے سے قطع نظر ،سردست مجھے اس فلم کے ایک ایسے حصہ کو پیش کرنا مطلوب ہے جس میں بحیثیت قوم ہمارےسوچنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔۔اس کہانی کے مرکزی کردار کا اپنی قومی زبان ہندی کے ساتھ محبت۔۔وہ انٹرویوز میں بھی ہندی کا سہارہ لیتاہے اور جب بل گیٹس کے سامنے تقریر کرتاہے تب بھی ہندی کو ترجیح دیتاہے۔۔کہانی کا اگلا پڑاؤ کیا ہے قارئین جاننے کی زحمت خود اٹھائیں تو وہ مجھ سے بہتر اس کی تفہیم حاصل کر پائیں گے ۔پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے چترالی زبان کو درپیش مسائل کےمتعلق ایک نشست میں مدعو کیا اور اپنی عادت کے برخلاف مجھے شریک ہونا پڑا۔عمومًا میں اردو سے ہٹ کے کسی دوسری زبان کے متعلق اتنا حساس نہیں رہاہوں ۔اس لیے اس طرح کے پروگرامات میں شرکت سے ہمیشہ معذوری ظاہر کی ہےمگر اس نشست میں جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ۔اس کے بعد یہ میرے لیے یک نہ شد دو شد والا معمہ بن گیا ہے۔وہاں مقررین کچھ اور سنا رہے تھے اور میری سوچوں کی ناؤ دوسری سمت میں سفر کررہی تھی۔کہ اردو زبان کا مستقبل کیا ہوگا۔اردو زبان کے ساتھ یہ سوتیلانہ سلوک کب تک روا رکھا جائے گا!!!یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ذہن پر ہتھوڑے بن کر برس رہے تھے ۔راقم الحروف نے اس مسئلہ پر مسلسل غور کیا ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے بہت سے سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیوٹ ادارے قائم ہونے کے باوجود اردو کو اس کا جائز مقام کیوں نہیں دیا جارہا اور کیوں قائداعظم کے ارشاد کو مسلسل نظر انداز کیا جارہاہے؟اردو کو نظر انداز کرنا محض ادبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بنیادی قومی مسئلہ ہے۔اردو کو نظرانداز کرنا دستور پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔بحیثیت قوم ہم نے پاکستان کے جواز کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے۔آئیے مل کر غور کرتے ہیں کہ اردو کو کیوں نظر انداز کیا جارہا۔۔۔!!! یہ دراصل پاکستان میں طبقاتی امتیاز اور کش مکش کو قائم رکھنے کی گہری سازش ہے۔میرے نزدیک پاکستان اس وقت تک صحیح معنوں میں آزاد،خودمختار،ترقی یافتہ،اور بہتر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنے والا ملک نہیں بن سکتا جب تک یہاں جاگیردارانہ نظام قائم ہے۔اور زبان کی بنیاد پرحاکم و محکوم کی تفریق جاری ہے۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ کسی باہر سے آئے ہوئے اسکالر نے کراچی میں اپنی تقریر میں یہ کہہ کر ہمارے منہ پر تھپڑ مارا تھا کہ”پاکستان آنے سے پہلے میں سمجھتاتھا کہ اردو میرتقی میر کی دردمند زبان ہے،سودا کی پرشکوہ زبان ہے،غالب کی سوچتی ہوئی زبان ہےاور اقبال کی آفاقی اقدار کی ترجمان زبان ہے۔مگر پاکستان آکر معلوم ہوابیروں،خانساموں،گھریلو ملازموں اور زیادہ سے زیادہ کلرکوں کی زبان ہے جبکہ انگریزی پاکستانی حکمرانوں کی زبان ہے۔۔اس صورتحال کو دیکھتےہوئے یوسفی صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو صحیح اردو پر غلط انگریزی کو ترجیح دیتی ہیں۔۔میرے نزدیک اردو کو تعلیمی اور سرکاری زبان بنانے کا زیادہ سے زیادہ”نقصان”یہ ہوگا کہ طلبہ اور عام دفتری ملازموں کی تخلیقی صلاحیت جاگ اٹھے گی۔اور ہمارے دیسی حکمرانوں کی فوقیت جو صرف انگریزی پر قائم ہے جس میں کوئی فکری پہلو بھی نہیں ختم ہوجائے گی اور یہ نقصان بھلا دیسی حکمران کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ہم رو رہے ہیں کہ کیوں ہمارے ہاں بڑے ادیب جنم نہیں لے رہے۔۔یہ سب بعد کی باتیں ہیں پہلے ہمیں اپنی زبان کی بقا کی جنگ لڑنی چاہیے۔سوچتاہوں کہ صوبہ کے پی کے میں انگریزی نظام تعلیم ہی ہمارا منہ چڑانے کے لیے کافی ہے کجا کہ ہم کسی وفاقی حکومت پر انگلی اٹھائیں۔میرے خیال میں یہ معرکہ صوبہ کے پی کے میں ہی بپا کرنا ہوگا یہاں یہ معرکہ سر کریں گے تو یقین مانیں پھر پورے ملک میں ہم اردو کو اس کا جائز دستوری مقام دلانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آج برقیاتی وسائل ابلاغ سے یہ بات مسلسل دہرائی جارہی ہے کہ آزاد عدلیہ،منتخب اعوان دستور ساز،اور آزاد صحافت کے بغیر جمہوریت قائم نہیں ہوسکتی اور نعرے بازی کے اس دور میں یہ بات سیاست داں بھی بھول گئے ہیں کہ اپنی زبان کے بغیر جمہوریت گونگی رہی گی۔یہ جمہوریت بہروں کے انجمن میں گونگی مقّررہ کی طرح ہوگی۔۔تو صاحبو! کیا آپ کو یہ صورتحال قبول ہے؟ بولو کہ صبح حشر کی تمہید کچھ تو ہو۔

Print Friendly, PDF & Email