دو سو روپے

استاد شیخ ابراہیم ذوق کیا خوبصورت بات کہہ گئے تھے!

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیوان ہی رہا

غالب کو بھی ساری زندگی یہی گلہ رہا کہ”آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا“

اس عالمِ رنگ و بو میں انسان ہی اس قابل ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے۔قرآن بھی انسان کو آدمیت کا شرف بخشنے کے لئے اتارا گیا ہے۔اور تاریخ عالم سے یہ ثابت ہے کہ تمام برگزیدہ ہستیوں کا فکری منہج بھی انسان کو آدمیت کی صفتوں سے متصف کرنا تھا۔علامہ اقبال نے خوامخوہ تصویر کائنات میں رنگ اور بوقلمونی کو وجود زن تک محدود کیا ہے۔حالانکہ ذرا گہرائی میں جا کے دیکھا جائے تو وجود زن ہی کائنات کے خوبصورت رنگ میں بھنگ کا سبب بنا ہوا ہے۔انسان کا مطالعہ دراصل شعور کے در وا کردیتا ہے۔البتہ خال خال اب بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جن سے مل کر اور جن کو برت کر یہ یقین بڑھتا ہے کہ اللہ اب بھی انسان اور دنیا سے نہیں روٹھا ہے۔ کافی تلاش بسیار کے بعد وہ اس تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔مگر اس کو یوں اپاہج پاکر جیسے اس پر قیامت صغری نازل ہوگئی۔وہ اس کا محسن تھا،اس کا غمخوا،اس کا رفیق بعض لوگ زندگی پر بوجھ جیسے محسوس ہوتے ہیں۔اتنا کہ اس کو اتار پھینکنے کے سوا کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں بچتا۔اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا زندگی میں ہونا گویا اس بوجھ کو ڈھونا ہے۔ان کا ساتھ زندگی کو ہلکا پھلکا کرجاتاہے۔وہ مشکل وقت میں روح جیسی آپ کا ساتھ نبھاتے ہیں۔حضرت عیسی مسیح۴ نے اس طرح کے لوگوں کو زمین کا نمک قرار دے کر کیا خوبصورت تمثیل میں ڈھالا تھا۔اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے ہی لوگوں کے دم سے دنیا کا ذائقہ برقرار ہے۔ امتحانات کے داخلے کے لیے فارم جمع کرنے کی آخری تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی تھی۔ویسے ویسے اس کی پریشانی مزید بڑھتی گئی۔گھر میں پیسوں کے لئے کہے اسے ایک ہفتہ ہورہاتھا مگر گھر سے کوئی اطلاع نہیں آئی تھی۔اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کس کا دروازہ جاکے کھٹکھٹائے۔اور پیسے بھی مدرسے کے ایک معلم کے توسط سے اس کو ملتے تھے۔اس نے جاکر اس معلم سے مدد مانگی کہ بعد میں میرے حصے سے کاٹ لینا۔مگر اس نے قریب قریب اس کو دھتکارتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں کالج والوں کے لئے کوئی پیسہ کوئی مدد نہیں۔یہ سن کر وہ وہاں سے نکل آیا تھا۔ یونیورسٹی کی راہداریوں میں سر نیہوڑائے وہ اسی فکر میں چلا جارہاتھا کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔جیسے اس نے اس کی پریشانی بھانپ لی ہو۔ہنس کر کہا کہ بیٹا کیا مسئلہ ہے۔اس نے اپنی بپتا سنادی۔ ایک بےمول سی مسکراہٹ اس کی لبوں پر بکھر گئی۔ایک ایسی مسکراہٹ جو ایک نئی زندگی کی نوید سناتی ہے۔دو سو روپے تھماتے ہوئے کہنے لگا۔کہ میری طرف سے یہ قرضہ حسنہ ہے۔جب بھی ہوں لوٹا دینا۔نہیں ہوں تو خود کو مت گُھلانا!!!! وہ دونوں جس حالت میں ملے تھے دونوں کو سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کون پہل کرے۔پھر وہ اٹھا اس نے اپنے محسن کے گُھٹنوں کو چھوا۔اس کے ہاتھ کو چومتے ہوئے کہا۔آج میں جو بھی ہوں آپ کے ان دو سو روپے کی بدولت ہوں۔میری زندگی اگر لڑکھڑاہٹ سے بچی ہوئی تو اس کا سبب آپ کے وہ دو سو روپے ہیں۔اس وقت میرا سب کچھ تمہارا ہے۔اگر میں اپنی زندگی بھی تجھ پر نچھاور کردوں تب بھی یہ سودا کم نہیں۔بس مجھ سے یہ حقیر تحفہ قبول کریں۔اس کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو جھلستی زندگی کو سیراب کر گئے۔ سچ یہ ہے کہ تاثرات انسانی زندگی پر اپنا گہرا نقوش ثبت کرجاتے ہیں۔دو سو روپے جی ہاں صرف دو سو روپے۔جنھوں نے اس شخص کی یاد کو کبھی ویران ہونے نہ دئیے۔

Print Friendly, PDF & Email