نیا زمانہ نئی صبح و شام پیدا کر

ہر شخص کا ایک ذاتی اور مخصوص نیا سال ہوتاہے۔نہ صرف کسی شخص کا بلکہ ہر قوم کا نیا سال مختلف ہوتا ہے۔رائج الوقت کیلنڈرچونکہ عیسوی ہے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ساکنان ِیورپ بڑے جوش وخروش سے نئے سال کو مناتے ہیں۔رات کے بارہ بجتے ہی آتش بازی سے فضا رنگوں اور روشنیؤ ں سے جگمگا اٹھتی ہے اور پٹاخوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔نئے سال کی آمد کا یہ جشن طرب اخلاقیات سے خاصے فاصلے پر واقع ہوتے ہیں۔اس جشن طرب کو منانے کے لیےمخصوص چوکوں اور دوسرے مقامات کا تعین کیا جاتاہے جہاں پر شریک خواتین وحضرات کی مے نوشی سے”ٹن”ہوجانے کا دور چلتاہے۔خواتین وحضرات خمار کی ایسی حالتوں میں ہوتے ہیں جہاں سے ان کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور حالات اتنے دگرگوں ہوتے ہیں کہ اگلی صبح کسی کو کچھ یاد نہیں آتا کہ کون کہاں تھا،کیسے تھا،کس طرح تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کس کے ساتھ تھا۔چنانچہ بعض طبقات اس رات اس لیے باہوش رہتے ہیں تاکہ موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جاسکے۔سات سمندر پار کس طرح کسی خاتوں کو”ہیپی نیو ائیر”کیا جاتاہے اور کیسے کہا جاتاہے اس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں لیکن اسے کہا نامناسب طریقے سے جاتاہے۔بہرحال یورپ جانے اور یورپین جانیں۔مگر ان کی دیکھا دیکھی ہمارے دیسی انگریز بھی یہاں بہت کچھ گل کھلاتے نظرآتے ہیں۔لاہور کے لبرٹی مارکیٹ،اسلام آباد کے سپر جناح مارکیٹ یا دامن کوہ پھر کراچی کے ساحل سمندر جیسے مقامات اس کے لیے مشہور ہیں کہ وہاں پر”شرفائے شہر” اپنے اپنے ا نداز میں نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہے ہوتے ہیں۔اس کا اندازہ لگانا اتنا مشکل نہیں کہ یہ انداز کس طرح کا ہوتاہے ۔انسان نقال رہاہے اور نفسیاتی طور پر اس طرح واقع ہوا ہے کہ ہمیشہ غالب تہذیب کی نقالی کرتاہے۔لہذا آج دنیا میں جس تہذیب کا ڈنکا بج رہاہے یہ سب اسی تہذیب کی دین ہے کہ انسان آج سیاہ اور سفید میں تمیز کرنے سے عاری ہوچکاہے اس کے لیے عجیب و غریب اصطلاحات کا سہارہ لیا جاتاہے جس کی رو سے پھر کوئی عمل گناہ نہیں رہتا اور انسان کو انسانیت کے مقام سے گرا کے جانور کی اس سطح پہ لاکھڑا کیا جاتاہے جہاں وہ ہر کھیت میں منہ مارتا پھیرے۔پاکستان میں بھی نئے سال کی آمد پربعینہ وہی کچھ کیا جاتاہے جو ہم یورپ میں دیکھتے ہیں۔ہوٹل کے کمرے بک کروائے جاتے ہیں۔ میں نے ایسے والدین بھی دیکھ رکھے ہیں جو اپنی بیٹیوں کو خود ان ہوٹلوں میں چھوڑ کر آتے ہیں ۔باقاعدہ اس عمل پہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔یورپ کی طرح ہمارے ہاں کے”شرفاء” بھی نئے سال کی آمد کا مطلب یہی لیتے ہیں کہ اس دن منہ کالا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مصداق یہ اس لمحے سے مزے کا ہر رس نچوڑ نے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔قربان جاؤں قرآن حکیم کی حکمت پر کہ اس نے انسان کے ان پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے بارے میں کہا کہ انسان ظالم تو ہے ہی اور ساتھ میں جاہل بھی واقع ہواہے۔ میں نے نئے سال کی دہلیز پہ کھڑے شخص سے کہا!مجھے روشنی درکار ہے تاکہ آنے والے موہوم ایام کو منور کرسکوں۔اس نے کہا اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دو۔وہ تمھیں منزل مقصود تک پہنچا دے گا۔ اے صحرائے زندگی میں بھٹکنے والے دوست!کب تک اس تاریکی و گمراہی کا شکار رہوگے ۔۔ حالانکہ تمہارے ہاتھ میں ایک روشن چراغ (قرآن وسنت کی صورت میں)موجود ہیں ۔مؤمن ہمیشہ دو پہلوؤں سے فکر مند رہتاہے ایک طرف تو اسے اپنے سابقہ عمل کے بارے میں دھڑکا رہتاہے کہ پتہ نہیں میرا یہ عمل اللہ کے ہاں کیا مقام پائے گا دوسری طرف باقی ماندہ مہلت کے بارے میں دل لرزتارہتاہے کہ نہ جانے اس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ کیا ہوگا۔لہٰذا ہر بندے کو اپنے آپ ہی سے اپنے لیے توشہ حاصل کرنی ہے اپنی دنیا سے اپنی آخرت تعمیر کرنی ہے بڑھاپے سے بھی پہلے پہلے اور موت سے بھی پہلے پہلے۔حبیب مصطفی ﷺ کے الفاظ میں "کوئی دن ایسا طلوع نہیں ہوتا جو پکار پکار کر نہ کہہ رہاہو کہ اے ابن آدم!میں لمحۂ تازہ ہوں اور میں تمہارے عمل پر گواہ ہوں مجھ سے جو چاہو حاصل کرومیں چلا گیا تو پھر قیامت تک دوبارہ نہیں آؤں گا۔”(الحدیث)

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے