چترال میں الہامی بلز کا طوفان اور واپڈگردی

اہلیان پاکستان کو مبارک ہو کہ سرکارنے عوام کی مزید آزمائش لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرنے کا فیصلہ کردیا ہے۔پہلے سے مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام کو مزید اس شکنجے میں کسنے کا پورا اہتمام کیا جارہا۔معاشی بازی گر اور حکومتی  کارندےعوام کو تبدیلی کی لولی پاپ پر ٹرخائے جارہے ہیں۔ایسی دگرگوں حالات میں محکمہ وپڈا کی من مانی اور وپڈا گردی اپنی انتہا کی طرف گامزن ہے۔ قارئین کویقیناً یاد ہوگا کہ جب لوڈشڈینگ سے ملک میں تاریکی راج کرنے لگی تھی۔۔تب حکومت اور ان کی تشہیری ٹیم نے عوام کو یہ باور کرانا شروع کردیا کہ بجلی کی پیدواری صلاحیت اور کھپت میں خلل پیدا ہوگیا ہے۔یہ دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جارہا تھا۔اس سارے قضئے کی حقیقت یہ تھی کہ محکمہ وپڈا اور حکومت کے درمیان گردشی قرضوں کے وصولی کے لئے یہ سارا رولا ڈالا گیا۔گردشی قرضوں کے گھن چکر میں عوام کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ماضی میں اس بحران پر قابو پانے اور اس سیکٹر کو ترجیح میں رکھنے کی کس نے کتنی کوشش کی سوائے ایک مخصوص“قوم“کے سب جانتے ہیں۔اس وقت ملک کے ہر شہر کو تین زون میں تقسیم کیا گیا۔۔پہلے زون میں لوڈشیڈنگ سرے سے ہوتی ہی نہیں تھی۔دوسرے زون کو لوڈشیڈنگ کے خانے میں رکھا گیا مگر اس کا دورانیہ کم سے کم تھا۔تیسرے زون میں تو حالت یہ تھی کہ بجلی کے تاروں پر لوگ سوکھانے کی غرض سے کپڑےلٹکانے لگے۔ان تمام سے ہٹ کر چترال میں تو اس سے بھی بدتر حالات چل رہے تھے۔۔اگر دعوی کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ لوڈشیڈنگ سے سب سے زیادہ اگر کوئی متاثر تھا تو وہ چترال تھا۔چترال کو اس خانماں خراب فہرست سے ہی باہر رکھا گیا۔ لواری ٹنل سمیت گولین گول بجلی گھرکی تعمیر میں سابقہ حکومت نے پھرتی دیکھائی اور ابتدائی مرحلے میں چترال کو بجلی مہیا کیا گیا۔عوام کو لگا کہ اب سکھ کا سانس لیں گے مگر پہلی ہی سانس میں ”اوور بلنگ“ان کے حلقے میں اٹکا دیا گیا۔غریب کو دن میں ہی تارے دیکھائے جانے لگےاور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔آپ شکایت لیکر محکمہ میں چلے جائیں تو شنوائی ہونا تو کجا الٹا صارفین کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور طرفہ تماشہ یہ کہ تمام بلز“الہامی“اور ”گمانی“بنیادوں پر جاری کئے جارہے ہیں۔میں ذاتی طور پر سرکار اور ان کی کئی میٹنگز میں موجود رہاہوں وہاں ہمیشہ ان کا رونا ہوتا ہے کہ ان کے پاس میٹرریڈرز نہیں ہیں۔ان کے پاس گاڑی نہیں ہے۔تیکنیکی عملہ دستیاب نہیں اور پھر یہ کہ یہ تمام بلز ”سوات“میں تیار کئے جاتے ہیں۔۔پہلی فرصت میں تو کرنے کا کام یہ ہے کہ اس دفتر کو فوری طور پر چترال منتقل کرنے کی مہم عوامی سطح پر شروع کی جائے اس میں بلاتفریق سب کو لیکر چلنے کی ضرورت ہے۔دوسرا یہ کہ ہر وقت عوام کی جیبوں پر نظر جمائے اس ادارے کو اس کا پابند کرایا جائے کہ وہ فی الفور ہنگامی بنیادوں پہ اپنے لیے عملہ کا بندوبست کرے۔تاکہ عوام کا یہ ناجائز استحصال ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوسکے۔ ابتدائی مرحلہ میں جب پتہ چلا کہ ملک کے دوسرے حصوں سے ہٹ کر یہاں یونٹ کا نرخ بڑھایا جارہا ہے تو ہم نے ارباب حل و عقد اور سول سوسائٹی کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تھی کہ ابھی سے اس مسئلہ کو قابو کرنے کی کوشش کریں ورنہ آگے جاکر اس عفریت کے آگے آپ اور صارفین سارے بےبس ہوجائیں گے۔ستم بلائے ستم حکومت نے یونٹ کے نرخ میں مزید دو روپے اضافے کا اعلان کردیا ہے”برق گرتی ہے تو بےچارے غریبوں پر“

اب بھی وقت ہے کہ سرمایہ کاروں کے ساتھ اس محکمہ کے سمجھوتوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے تاکہ اس ادارے کا لگام دیا جاسکے۔ حکومت کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک دوسرے کی مجبوری بن چکے ہیں اور حکومت نے دو روپے فی یونٹ اضافہ کا اعلان کرکے ان کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے۔اس مسئلہ کا واحد حل یہی ہے کہ اب عوام کو سڑکوں پر لایا جائے ۔نہیں تو حکومت اور وپڈا کے ہاتھوں مزید استحصال کے لیے تیار رہیے۔

Print Friendly, PDF & Email