چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں!

ایک ادبی اور فکری نشست کے موقع پر اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر اور دنیا چینل کے مذہبی پروگرام؛صبح نو؛کے مقرر ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم صاحب سے مختلف فکری موضوعات پر تبادلہ خیال ہورہاتھا۔ خاص کر سوشل میڈیا میں روز افزوں اخلاقی اقدار کی گرتی صورتحال موضوع بحث تھا۔میرا مدعا یہ تھاکہ پہلے پہل سوشل میڈیا میں اس قدر طوفان بدتمیزی برپا نہیں تھا جس قدر اب دیکھنے کو مل رہاہے اختلافات پہلے بھی موجود تھے مگر باہمی احترام کا ایک ماحول موجود تھا۔اب ہر دو سطح پر چاہے وہ مذہبی ہویا سیکولر، شدت پسندی کا اظہار دیکھنے کو مل رہاہے۔آزادی رائے واقعی میں بھونک رہی ہے اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔اس سے پہلے کہ کوئی بڑا سانحہ رونما ہو اور فساد پھوٹ پڑیں۔کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ آگے بڑھے اور کچھ ایسے قوانین وضع کرے جس سے مذہبی جذبات کے مجروح ہونے یا بھڑکنے جیسے اقدامات کی روک تھام ممکن ہوسکے۔ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سالمیت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے باقاعدہ قوانین او رادارے موجود ہیں جو ہر طرح کے  محرکات پہ نظر رکھے ہوئے ہیں اور خلاف ورزی کی صورت میں بھرپور ایکشن بھی لیتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کے دائرہ اختیار کو بڑھایا جائے اور دینی شعائر کو ریاستی قوانین کی صورت میں تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ شدت پسندی کے تمام چور دروازے بند کئے جاسکیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جو کسی طورفکری بالغ نہیں کہلاتا ہمارے علمااور دانشور یا نظریاتی اختلاف رکھنے والے طبقے آج تک اپنے تصور اختلاف طے نہیں کرپائے ہیں کہ ہمیں کہاں اور کیونکراختلاف کرنا ہے اختلاف کی نوعیت کیا ہونی چاہیئے۔ ہمارے ہاں اختلاف کے نام پہ ہمیشہ مخالفت کا ماحول پروان چڑھایا جاتارہاہے جس میں اختلاف کا واحد مقصد فریق مخالف کو پچھاڑنا  رہ گیا ہے اور اس کے لئے بازاری زبان کا خوب سہارا لیا جاتاہے۔اسی طرح کے مناظرانہ فضا میں جہاں مذہبی طبقہ دوسروں کی تکفیر سے باز نہیں آتا وہاں سیکولر طبقہ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

ذاتی طور پر میں اختلاف رائے کو پسند کرتاہوں یہ اختلاف لبرل بیانیے  کی صورت میں ہو یا مذہبی، اگر وہ مہذب اور شائستہ انداز میں پیش کیا گیا ہو تووہ اس قابل ہے کہ اس کی تحسین کی جائے اگر اختلاف کے نام پہ محض فکری انارکی پھیلانا ہو یا اپنی نفسیاتی تسکین کے لئے فریق مخالف کو اشتعال دلانا مقصد ٹھہرنے لگے تو ضروری ہے کہ ایسے عناصر کا نہ صرف بائیکاٹ کیا جائے بلکہ ان کے خلاف قانونی طریقے سے تادیبی کاروائی عمل میں لایا جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ اسلامی دنیا سیاسی وفکری طور پر عالم نزع میں مبتلا ہے کوئی ایسا مرد بحران بھی موجود نہیں کہ جو عالم اسلام کو اس نزعی کیفیت سے نکال کے ان میں تازہ روح پھونک سکے جو موجود ہیں اور وژن رکھتے ہیں ان کا وژن عالم اسلام کو وزن عطا کرنے سے قاصر ہے بلکہ وہ ایک طرح سے اس بحران میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔فکری تحریکیں جتنی برپا ہیں وہ امت کی اس جسد خاکی میں یرقان کی حیثیت رکھتی ہیں۔عوامی سطح پر اس سے بھی برا حال ہے وہ مختلف ازموں اور شخصی لیڈروں کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں اسلامی تہذیب سے روگردانی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے تعلیم اور تعلیمی مقاصد کی زبون حالی شدت اختیار کرتی جارہی ہے ریاست کو ” خالہ جی” کا گھر سمجھنے والوں کی بہتات ہے۔کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ معاشرے کی گند  اب کھل کے سامنے آگئی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ گاؤں والے بندر لڑاتے ہیں اور شہر والے مولوی لڑاتے ہیں اب سوشل میڈیا میں آپ چاہیں تو کسی کو بھی لڑا سکتے ہیں۔چاہیں تو "سنی شیر” کے نام سے بیچ چوراہے پر چلا کے کسی کو بھی کافر کہہ سکتے ہیں اہل تشیع یہاں بیٹھ کے ایران سے اختلاف رکھنے والوں کو امت سے خارج کرسکتے ہیں بریلوی،دیوبندی کے نام سے جس طرح چاہیں منجن بیچ سکتے ہیں سیاست کے نام پہ جس کو چاہیں منافق ٹھہرا کہ ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرسکتے ہیں۔آپ چاہیں تو بھینسا، روشنی کے نام سے صفحے ترتیب دے کر آزادی رائے کے نام پہ نبی اکرمﷺ اور قرآن مجید کی(نعوذ باللہ) توہین کرسکتے ہیں۔یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی سطح پہ یہی چلن سب کو مرغوب رہاہے اور سب نے اپنی مقدور بھر استطاعت سے اس میں حصہ ڈالا ہے۔اب چونکہ ریاست حرکت میں آگئی ہے تو یہ واویلا کیوں؟ریاست اپنی بلادستی کو منوانے کا طریقہ خوب جانتی ہے اب یہ فیصلہ اٹل ہے کہ ریاست کو کسی بھی طرح سے انارکی کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے