پاکستان کو مقروض کرنے والے کون ہیں

(گزشتہ سے پیوستہ)

زیل نیوز کے قارئین کو شاید یاد ہوگا کہ جب پانامہ کا ایشو اٹھا تو دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس کا شدید ردعمل سامنے آیا چونکہ اس میں وزیراعظم کے بچوں کا نام شامل تھا اسی لئے وزیراعظم کو دو بار قوم سے خطاب کرنا پڑا ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مسئلہ مزید سلگتاگیا اور آخر کار ملکی عدالت عالیہ کو اس کی سماعت کےلئے چاروناچار راضی ہونا پڑا.اب تک کی کاروائی سے یہ تو ثابت ہوگئی ہے کہ حکومتی وکلاء رام لیلی کی کہانی میں عدالت کو الجھا رہے ہیں ان کے دلائل آئے دن حکومت کو اس دلدل میں مزید دھنسانے کا باعث بن رہے ہیں.

میں نے اپنے پہلے کالم میں اس معاملے سے جڑے دوسرے لوگوں کا بھی ذکر کیا تھا پس منظر کے طور پر پاکستان میں بدعنوانی کوفروغ دینے والے مسٹر ٹین پارسنٹ(زرداری) اور اس کی مرحومہ بیوی کے کردار پر بھی مختصراً لکھاتھا.سیاسیات کا عام طالب علم بھی یہ جانتاہے کہ پاکستان کو کرپشن کے اس ناسور میں مبتلا کرنے والی یہی جوڑی تھی. پانامہ لیکس کے بعد اب نواز شریف اینڈ کمپنی بھی اسی صف میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔

جب اسحاق ڈار کو خزانہ کا قلمدان سونپا جارہاتھا تب اس نے ملک سے باہر پڑے سرمائے کے حوالے سے بڑے بلند بانگ دعوے کئے تھے مگر وہ سرمایہ توواپس لانے میں ناکام رہا البتہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی جال میں پھانساتا جارہاہے چنانچہ اب اس کا نام وزیر خزانہ کے بجائے وزیرگورکھ دھندہ رکھا گیاہے.جس کو ایک ہی ٹاسک ملا ہے کہ عوام کو حکومتی کارگردگی کے نام پہ بےوقوف بنائے. آئیے عالمی تحقیقاتی اداروں کے جاری کردہ رپورٹ کی روشنی میں پاکستان میں کرپشن کے پنپنے کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں

"ٹیکس جسٹس نیٹ”برطانیہ کی ایک نجی تنظیم ہے. اس سے وابستہ محقق اور صحافی تحقیق کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ٹیس چوری کس نہج پرجاری ہےـتنظیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیابھرمیں امراء کے”21تا32 ٹریلین ڈالر” مالیاتی پناہ گاہوں(آف شور کمپنیوں) میں موجود ہیں.اس بھاری بھرکم رقم پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگتا رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں غربت وجہالت رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے امراء ٹیکس نہیں دیتے بلکہ اپنی دولت چھپا دیتے ہیں تاکہ ٹیکس کم سے کم دینا پڑےـ

مثال کے طور پر پاکستان کو لیجئے.وطن عزیز میں کم ازکم 70 لاکھ افراد طبقہ امراء میں شمار ہوتےہیں ـ یعنی وہ گاڑیاں رکھتے،عالیشان گھروں میں رہتے اور پرآسائش زندگی گزارتے ہیں.مگر ان میں سے صرف”6لاکھ”ٹیکس دیتے ہیں.ان میں سے بھی کئی پاکستانی اس شرح سے ٹیکس نہیں دیتے جتنا انھیں دینا چاہئیے

ٹیکس وصول نہ ہونے پر پاکستانی حکومت پاکستانی عوام پر بلواسطہ(indirect) ٹیکسوں کی بھرمار کردیتی ہے.یوں پہلے ہی اخراجات کے بوجھ سے دبے عوام پر مزید وزن بڑھ جاتاہے۔  ایک رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان کو "65 فیصد ٹیکس آمدن”بالواسط ٹیکسوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے جبکہ بلاواسطہ ٹیکسوں میں 70 فیصد آمدن "ود ہولڈنگ ٹیکس”سے ہوتی ہے جس کوبڑھانے پر تاجروں کا حکومت سے جھگڑا بھی ہوا تھاـ

2014 میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انکشاف کیا تھا کہ امیر پاکستانیوں کے”200ارب ڈالر”سوئس بینکوں میں جمع ہیں۔ یہ رقم اور یہ انکشاف دماغ چکرا دینے کے لئے کافی ہے.وطن عزیز تقریبًا 60 ارب ڈالر کا مقروض ہے اگر کرپٹ پاکستانی اپنا سرمایہ وطن واپس لے آئیں تو یہ قرض چند برس میں اتر سکتا ہے.مگر لائے کون یہ سوال اپنی جگہ بھی اہم ہے کیونکہ ملک کے مقتدر اداروں میں سب وہی مگرمچھ بیٹھے ہیں جن کا سرمایہ باہر پڑا ہے۔جن کو وطن سے بڑھ کر اپنی ذات اور اپنا سرمایہ عزیز ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کرپشن کا بےتاج بادشاہ ہے اور مسلم لیگ کے نام پہ ہر پارٹی کرپٹ رہی ہے پھر بھی زمام کار ان ہی کو سونپی جاتی رہی۔ نام نہادمذہبی پارٹی جے یوآئی نے ہمیشہ ان کرپٹ مافیاز کو اپنا کندھا پیش کرتی چلی آئی ہے اے این پی کی پوری سیاست کا ماحصل ہی مال بٹورنا ہے متحدہ قومی مومنٹ کے اراکین کا ماضی اور حال کا موازنہ کرکے دیکھ لیں کہ وہ کہاں تھے اور اب کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ایسوں کے ہوتے ہوئے پھر کس طرح سے ملک میں اصلاحات لاگو ہوسکتے ہیں۔ کنویں سے پانی کے بجائے کتے کو نکالنے کی فکر ہونی چاہئیے۔ یہی فطرت کے اشارات ہیں اور یہی کامیابی کی شاہ کلید۔ باقی جو کچھ ہے دھوکہ ہے ٹھگ ہے شیخ چلی پن ہے

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے