نظام تعلیم کے نقائص

کسی بھی ملک اور قوم کا نظام تعلیم اس کے مقاصد حیات کا نہ صرف آئینہ دار ہوتاہے بلکہ اس کی منزل مقصود کاپیامی بھی ہوتاہے.قیام پاکستان سے لیکر آج تک یہ سوال ہمارے ماہرین تعلیم کےلئے ہمیشہ ایک بھیانک چیلنج بن کر سامنے آتارہاہے کہ کیا ہمارے ملک میں رائج نظام تعلیم ان مقاصد کےحصول میں معاون رہاہے جو ہمیں فکری،فنی،اور سماجی سطح پر مطلوب ہیں؟ماہرین تعلیم کا پتہ نہیں البتہ اس ملک کا ہر باسی یہ بہترجانتاہے کہ اس نظام تعلیم کا ماحصل کچھ بھی نہیں. یہ اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے آج تک اس ملک میں جس طرز کی بھی حکومت رہی ہو چاھے وہ سیاہ امریت ہو یا نام نہاد جمہوریت، تعلیم اور نظام تعلیم کے نقائص دور کرنا کبھی ان کی ترجیح نہیں رہی ہے..ہمارا یہ نظام تعلیم کن بنیادوں پہ استوار ہے آئیے ملک کی بربادی کی داستان کا مختصرًا جائزہ لیتے ہیں دورِحاضر میں نظام تعلیم میں ضرورت سے زیادہ زور تعلیم کےافادی اور تجارتی پہلو پر دیاجاتاہے.اور اس کے انسانی اور مقصدی پہلو سے صرف نظر کرلیاگیاہے..اس کا نتیجہ جو ہونا تھا وہ بیشتر ہی سامنے آنا شروع ہوا تھا..اس کے بارے میں مزید جاننا ہو تو آپ ذرا سینٹ کی تعلیم کےحوالے اسٹیڈنگ کمیٹی کی جائزہ رپورٹ ملاحظ کریں تو ایک باشعور انسان کو پاگل کرنے کالئے کافی ہے.جس میں ملک کے تعلیمی اداروں میں منشیات کا کھلے عام استعمال اور جنسی بےراہروی کےبڑھتے جیسے واقعات سرفہرست ہیں ہمیں من حیث القوم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ نظام تعلیم ہمارے طالب علم میں نہ صرف اجتماعی بلکہ انفرادی زندگی کےبلند نصب العین کےلئے تڑپ پیدا کرنے سے قاصر رہاہے.اس نظام تعلیم کا ماحصل محض کلرک یا اوسط درجے کا منتظم پیدا کرنا ہی رہاہے.طالب علم کی اخلاقی اور سماجی نشوونما کو کوئی اہمیت دی گئی ہے نہ ان کی شخصیت کے سنوارنے اور ان کی تخلیقی قوتوں کےاظہار کےلئے کوئی مواقع فراہم کرنےکی کوشش کی گئی ہے.محض لکیر کا فقیر بنایا گیا ہے.مستقبل کا معمار نہیں اگر ہم موجودہ نظام تعلیم کے اندر مزید نقائص کی تلاش کریں تو درجہ ذیل ہونگے

(۱)ہمارا نظام تعلیم دینی عنصر سے خالی ہے

(۲)یہ آج تک بہتر کردار سازی کرنے میں ناکام رہاہے

(۳)اس نظام کا سب سے مضحکہ خیز پہلویہ ہے کہ ایک ہی ملک میں کئی طرح کے متضاد ہائے نظام تعلیم کا متوازی وجود پایا جاناہے

(۴)یہ نظام تعلیم قومی تقاضوں کو پورا کرنےسے تہی دامن چلا آرہاہے اس نظام کے زیرسایہ پروان چڑھنے والی نئی پود تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہیں

(۵)پھر یہ کہ موجودہ نظام میں تعلیم ایک بالاتر اور خوش قسمت طبقے کا حصہ اور استحقاق بن کر رہ گئی ہے..

ان تمام المیوں کےلرزا دینےوالے سبق ہی نے اکبرالہ آبادی کو یہ کہنے پہ مجبور کیا تھا یوں قتل سے بچوں کےوہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی اس خیال کو شاعرانہ واہمہ قرار دے کر گزرجانا سادہ لوحی کےسوا کچھ بھی نہیں حقیقت یہ ہے کہ عوام کی زندگی ان کی ثقافت،ان کی معاشرت اور اور معیشت سے تعلیم کا کوئی تعلق باقی نہیں رہاہے.جس تعلیم کا اس ثقافت اور معاشرے سے تعلق ہی باقی نہ رہے کہ جس میں وہ جاری ہے.تو ایسی تعلیم لامحالہ بانجھ اور ایک حیات کش مشق ثابت ہوگی.بلکہ معاشرے کےانحطاط اور انتشار کا ذریعہ بنے گی اور قوم کو پارہ پارہ کرکے رکھ دے گی ــ ہمارے اردگر رونما ہونے والے واقعات اس پر تصدیق مہر ثبت کررہے ہیں کہ یہ نظام تعلیم کھوکھلا ہوچکاہے اور اس اصلاحات لائے بغیر اسی طرح جاری رکھنا اس قوم کے مستقبل سے کھلواڑ کرناہے اور کچھ بھی نہیں.اس نظام تعلیم کے ہوتے ہوئے ہمارا قومی ترقی اور قومی وحدت کا خواب دیکھنا شیخ چلی پن تو ہوسکتاہے اور کچھ نہیں

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے