چترال کانیا عہد نامہ”ڈی سی کریسی”اور”رضائی فورس” 

آپ سب کو یقیناً تعجب ہورہا ہوگا کہ یہ فورس کی کون سی نئی کھیپ ہے؟ تو قارئین کرام”رضائی فورس” جس کا قریب ترین معنی”کمبل اوڑھ سپاہی” بنتا ہے دراصل "رضاکار فورس” کی بگڑی شکل ہے اور ایسا کیوں ہے اس کا جواب آگے جاکر ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔میں نے چترال سے باہر تعلق رکھنے والے اپنے بہت سے باشعور،اہل علم اور سماجی معاملات میں متحرک دوستوں سے استفسار کیا کہ کیا ان کے ہاں بھی اس طرح کی کوئی مخلوق پائی جاتی ہے جو رضاکار کہلاتے ہوں۔ یہ تو چھوڑیں وہ اپنے علاقوں کے ڈی سی کے نام تک نہیں بتا سکے۔مجھے ان پر ترس آیا کہ بیچارے ڈی سی کریسی کی برکتوں سے خود کو محروم رکھے ہوئے ہی۔ اردو ادب کے نابغہ روزگار ادیب مولوی عبدالحق نے کہا تھا کہ برصغیر میں انگریزوں کی چھوڑی ہوئی باقیات میں سب سے بھیانک اگر کچھ ہے تو وہ بیوروکریسی ہی ہے۔ اس کو آج کل دوسرے پیرائیے میں بیان کیا جاتا ہے کہ سفید انگریز تو چلے گئے مگر اپنے پیچھے کالے انگریز چھوڑ گئے۔ابن انشاء نے موجودہ عہد کو اردو مزاحیہ ادب کے بڑے نام مشتاق یوسفی سے معنون کرکے کہا تھا کہ ہم اردو مزاح کے "عہد یوسفی” میں جی رہے ہیں۔ مگر اہالیان چترال کی اس بیوروکریسی فریفتگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم”عہد بیوروکریسی و رضاکار فورس” میں جی رہے ہیں۔ چترال جہاں بہت سے مثبت اور منفی پہلوؤں سے اپنی ایک شہرت اور پہچان رکھتا ہے وہاں اس کی پہچان دور افتادہ ہونا بھی ہے۔آپ کسی بھی لکھاری کو اٹھا کر دیکھ لیں،آپ کو وہ اس کی دور افتادگی کا رونا روتا نظر آئے گا۔ایک دوسرا تاثر اس طرح سے بھی ابھرتا ہے کہ یہاں مین اسٹریم میڈیا نہ ہونے کے برابر ہے،بلکہ نہ ہونے کا لفظ بھی اس کے لیے کچھ زیادہ لگ رہاہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہمیں معمولی خبروں اور مسائل کو ارباب حل و عقد تک پہنچانے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا اور خاص کر کتاب چہرہ(فیس بک) کا کہ اس سے کم از کم ہمیں اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ آج کل ساکنانِ چترال کونسے شغل پورا کرنے میں لگے ہیں۔ کچھ عرصہ سے چترال میں ایک روایت جڑ پکڑتی نظر آئی ہے اور اس روایت کی کوکھ سے عجیب عناصر پیدا ہوئے ہیں جو کہ اپنی نہاد میں”نفسیاتی غلامی” کا مظہر ہے۔بھلے سے کوئی اس کو”رضاکار فورس” جیسا معقول نام دے ڈالے مگر رنگ برنگ نام رکھنے سے حقیقت اور ماہیت تبدیل نہیں ہوتی۔ان عناصر کو اگر کوئی چترال کا مثبت چہرہ گردانتا ہے تو اس کو اپنی کم فہمی کا ماتم کرنا چاہیے۔اگر یہ سب کچھ کرنا ہی ہے تو اداروں کو تالا لگوا لیں اور سب کو رضاکار بھرتی کرلیں۔پھر اداروں کی یہ جھنجھٹ کس لیے؟ چترال میں گذشتہ چند سالوں میں ان نووارد عناصر نے ایک نئی روایت کا ڈول ڈالا ہے۔ڈی سی کریسی چترال میں خوب پنپتی نظر آرہی ہے اور اس کا محرک یہی ایک طبقہ ہے۔ڈی سی ہو یا ڈی پی او یا کوئی اور کلیدی عہدوں کے انتظامی اہلکار وہ اپنی اصلیت میں سرکاری ملازم ہی ہوتے ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کا کام کیا ہوتا ہے اور ان کو ان کے دائرے میں محدود رکھنا کیوں ضروری ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ سمجھنا مشکل ہومگر لگ رہاہے کہ اب چترال کے باسیوں کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے۔عوام کی اس بیجا لاڈ کا نتیجہ ہی ہوتا ہے کہ یہاں آکر ان "صاحبوں” کو بادشاہ یا بادشاہ گر بننے کی لت پڑجاتی ہے اور یہ عناصر ان کے مصاحب بننے کی چاہ میں مرے جاتے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے کیا ہورہاہے کہ ہر ڈی سی کی آمد پر یہ حضرات سر کے بل کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ایسے پروٹوکول سے نوازا جاتاہے گویا کوئی سربراہ مملکت آرہے ہوں یا مہتر دور پھر سے شروع ہوچکاہو۔ پہلے کہاجاتا تھا کہ ان انتظامی عہدوں کے لیے کوئی چترال آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھااور جن کو بھیجا جاتا تھا ان کے متعلق مشہور تھا کہ بطور سزا وہ یہاں لائے جاتے تھے۔اب صورت حال مکمل تبدیل ہے۔اب تو سنا ہے یہاں آنے کے لیے پاؤں تک پکڑے جاتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟رضاکار فورس کے علاوہ سب بخوبی واقف ہیں۔ سیاستدانوں کی نااہلی اور نالائقی اس ذہنیت کو پروان چڑھانے کے لیے جواز نہیں ہوسکتا۔اس کا دوسرا حل ڈھونڈئیے۔مسرت حاصل کرنے کا یہ طریقہ کافی خطرناک ہے۔پچھلے کچھ سابقہ ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرزکی حد سے بڑھی سیاست کا شوق اور مداخلت نے ہمارے ہاں سیاسی اور معاشرتی توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔اب مزید یہ معاشرہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔لہٰذا ضروری ہے کہ ان کو ملازم ہی رہنے دیں آقا مت بنائیں۔

Print Friendly, PDF & Email