یہ مسائل ِ”شہر یہ تیرا لیپا پوت سیاستدان”

بیوروکریٹ کے اپنے طریقہ وردات ہیں.وہ ہمیشہ دوسروں کا کندھا استعمال کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے آئے ہیں..بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اسی لیے کہا تھا کہ طوائف اور بیوروکریٹس کا اعتبار نہیں کرنا چاھئے..وہ اپنا الّو سیدھا کرنے کا ہر طریقہ جانتے ہیں..چنانچہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ حکومت کو بھی یہ زچ کرکے رکھ دیتے ہیں..یہ 2016 کے آواخر کی بات ہے میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ فٹ بال دیکھنے کی غرض سے شاہی مسجد سے متصل کھیل کے میدان میں موجود تھا. ایف ایم ریڈیو کا ایک میزبان جو ڈی سی او جناب وڑائچ صاحب کا انٹرویو لیا کرتاتھا..نازل ہوا اور کچھ سوالات ریکارڈ کرانے کی درخواست کی.ان کے اصرار پر میں نے تین سوال اس کے سامنے رکھے…کہ چترال میں اتنے گوں ناگوں مسائل کی موجودگی کے باوجود آپ کو پارک بنانے کی کیا ضرورت تھی..

Related image

دوسرا سوال بھی اس کا تسلسل تھا کہ پرائس کنٹرول کے حوالے سے آپ کی ناک کے نیچے ایک تماشہ ہورہاہے اور آپ ریڈیو پہ انٹرویوز سے محظوظ ہوئے جارہے ہیں آخری سوال جناب کا سیاست میں خطرناک حد تک ملوث ہونے کی طرف تھا..مجھے پورا یقین تھا کہ یہ سوالات جناب مرحوم وڑائچ کو پیش نہیں کئے جائیں گے..حسب توقع ایسا ہی ہوا..یاد رکھیں اس وقت مرحوم ڈی سی او کو پی ٹی آئی والے خوب کندھا دے رہے تھے..اور اس بار بھی سنا ہے کہ ڈی پی او کو بچانے کے لیے اسی پارٹی نے پھر سےاپنا کندھا پیش کردیا ہے. آئیے ذرا چترال شہر کی سیر کرتے ہیں ..آپ ذرا چیوپل سے آگے ائیرپورٹ روڈ کی طرف نکلیں تو آپ کا سابقہ ایسی سڑک سے پڑے گا جس میں قدم قدم پر کھائیاں موجود ہیں لگ نہیں رہا ہوتاہے کہ آپ سڑک پر سفر کررہے ہیں ایسے جھٹکے لگتے ہیں کہ گویا قبرستان ،ہر کوئی گاڑی چھڑ دوڑی ہو..اسی سڑک کے بعض حصے تالاب کا منظر بھی پیش کرتے ہیں..حالیہ خان صاحب جب اپنے اے ٹی ایم مشینز کے ساتھ چترال آئے تو ہم سب نے دیکھا کہ کچھ مزدا والوں کو کرایہ دلا کر یہ کھڈے اور کھائیاں بھرے جارہے تھے تاکہ خان صاحب کو دھکا نہ لگے کچھ دن پہلے میں کسی رشتہ دار کی تیمارداری کرنے ژانگ بازار میں واقع ہسپتال میں موجود تھا.شام کا وقت تھا پی ٹی آئی کی مقامی قیادت ہسپتال میں موجود تھی..غالباً خان صاحب بمبوریت سے واپسی پر وہاں آنا تھا..میں نے دیکھا کہ ایمبولینس میں گندگی بھر کے باہر لے جایا جارہاہے اور ڈی ایچ او صاحب کو جنریٹر کا بندوبست کرنے کا حکم بھی دیا جارہاتھا میں ذرا فاصلہ پر کھڑے ہو کر اس عجوبہ سیاست کا بھیانک رخ دیکھ رہاتھا…کل ہمارے کچھ دوست ہسپتال میں ایمبولنس کے نہ ہونے پر شکوہ کنان تھے ان کو خبر ہو کہ اب ایمبولینس گندگی اٹھانے پر مامور کیا گیا ہے…یہ سب وہ افراد کروارہے ہیں جو بڑے طمطراق سے اصلاحات لانے اور اداروں کا قبلہ درست کرنے پر ڈینگیں مارتے نظر آتے ہیں چترال شہر کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ شہر ناپرسان بن چکا ہے تو اس میں ہرگز کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی.. واقعی میں چترال شہر مسائلستان کا منظر پیش کررہاہے

اندرونِ شہر سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت،بجلی کی آنکھ مچولی،ہسپتال کی بدحال ہوتی صورتحال،پانی کی قلت،اشیائے خوردونوش کا غیرمعیاری ہونا.نرخانامے پر عمل نہ کرنا،یہ وہ سیاہ کارنامے ہیں جس میں تمام سیاسی پارٹیز بشمول ضلعی انتظامیہ سب اس میں شریک رہے ہیں اندرون شہر کے مسائل کیا ہیں اور کون کتنا غفلت برت رہاہے ہم سب جانتے ہیں..قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران سے ہمیں کوئی توقع نہیں کیونکہ ان کی دوڑ ووٹ جیتنے تک ہوتی ہے اس کے بعد وہ عوام کو دوڑانے میں لگا کر رفوچکر ہوجاتے ہیں..پی ٹی آئی کی ایک عدد ایم پی اے صاحبہ اور پی پی پی کے دو عدد ایم پی اے صاحبان اور ہر لیگ سے جڑا جناب ایم این اے صاحب کی کارگردگی فیس بک میں ہو تو ہو مگر برسر زمین وہ فی الحال صفر کے خانے میں کھڑے ہیں..ضلع میں بلدیاتی انتخابات کے بعد بننے والی حکومت اگرچہ اختیارات اور سرمایہ کی عدم دستیابی کا رونا رو رہے ہیں مگر وہ بھی ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے..اور جو کچھ ہورہاہے لیپاپوتی کی حد تک ہورہاہے…غالب سے معذرت کے ساتھ

"یہ مسائل شہر یہ تیرا لیپاپوت سیاستدان”

ان کو ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوت

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے