یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کوکیا کم ہے

اسلامی تاریخ کا عمیق مطالعہ یہ بتاتاہے کہ دین اسلام کوہر دور میں جہاں بیرونی فکری یلغار کا سامنا رہا وہاں اندرونی طور پر بھی بڑے شد ومد سے فتنہ اٹھائے گئے..مگر اسلام اپنی نہاد میں اس قدر مضبوط اور لچکدار ثابت ہوا ہے کہ سرخروئی ہمیشہ اسلام کے حصے میں رہی..ہم عباسی دور کے معتزلہ پر نہیں جائیں گے.کیونکہ اس فتنہ کو شاہی دربار سے جو حیات مستعار ملی تھی وہ امام احمد بن حنبل کا ایک انکار سہہ نہ سکی اوریہ فتنہ ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہوگیا.البتہ ہمارے دور سے متصل ادوار میں معتزلہ دو شکلوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی "فتنہ انکار حدیث”یا پھر "قرآنسٹ”کی صورت میں..ہم اپنے قارئیں کی آسانی کے لئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ طبقہ سنت کو کوئی مستقل انسٹی ٹیوشن نہیں مانتے ہیں”مگر یہ پوری فکر سید مودودی کی چند کتاب(منصب رسالت،اور سنت کی آئینی حیثیت) کا بوجھ سہار نہ سکی اور ریزہ ریزہ ہوکر تحلیل ہوگئی

اب اس کا تیسرا جنم ہونےوالا ہے یا ہوچکا ہے..قرآئن یہ بتا رہے ہیں کہ یہ فتنہ ایک نیا چولا زیب تن کرکے "فکری بھنگڑا” ڈالنے کے لئے تیاری کررہاہے.بعض دوستوں پر لفظ فتنہ گراں گزرے گا مگر جس فکری منہج پر یہ دوڑ شروع ہوچکی ہے.اس کے خدوخال ماضی کے تمام اٹھے ہوئے اور اٹھائے گئے فتنوں میں نظر آتے ہیں..ہم جزئیات پر نہیں جائیں گے.موٹی موٹی باتوں کو لیتے ہیں.

اس موضوع پر لکھنے کی وجہ میرے ایک دوست ہیں جن کا یہ فرماناہے کہ وہ 80 فیصد غامدی صاحب سے اتفاق رکھتے ہیں…مجھے مجبورًا اس 80 فیصد میں جھانکنا پڑ رہاہے کہ آیا یہ بھاری بھرکم فیصد اس قابل بھی ہے کہ اس سے کلی اتفاق ہونا ممکن ہو.آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات نوٹ کرلیں کہ جناب غامدی صاحب کی کتاب”میزان”اس کا ایک عارضی فکری پڑاؤ تھا. کوئی مستقل پڑاؤ نہیں ہے.جناب کا تیشئہ تحقیق کافی کچھ نیا برآمد کر چکا ہے

اتفاق کہاں کہاں سے کریں گے.جس فکری نہج پر انجناب کھڑے ہیں کیا یہ قرآن سے استنباط ہے؟کیا یہ فہم قرآنی ہے یا وحید الدین خانی ہے؟یہ سامنے کی چیزیں ہیں البتہ اس فکر کو قرآنی کہنا میرے بس سے باہر کی چیز ہے.درجہ ذیل امور بھی کیا اس 80 فیصد میں آتے ہیں.جائزہ لینے کی ضرورت ہے

  1. جہاد موقوف ہوچکا ہے.قتال رسول کے ساتھ مخصوص تھا..اس کے لئے وہ اتمام حجت کی اصطلاح "ایجاد” کرچکے ہیں.
    یہاں یہ سوال اٹھتاہے کہ پھر صحابہ کس اصول کے تحت روم و فارس کے خلاف قتال کئے تھے.؟کیا ان کے پیش نظر دوسرا کوئی توسیع پسندانہ نظریات تھے؟یا ذاتی مفاد؟
  2. شہادت علی الناس ہمارے ممدوح نے اس کو بھی رسالت ماب ص کے دور میں مقید کرکے یہ اصول نکالا ہے کہ دین کی دعوت اب کوئی دینی یا مذھبی فریضہ نہیں رہا(میرے دوست کا کہنا ہے کہ غامدی صاحب کو تحریک اسلامی سے گلہ ہے کہ دعوت سے منہ پھیرا گیا ہے)یہ منصب "ذریت ابراہیم”کے کے لئے مخصوص تھا(وہ صحابہ جو ذریت ابراہیمی سے تعلق رکھتے ہوں..رہے اس ذریت سے باہر کے صحابہ اس اصول کے تحت وہ میرے خیال میں امت کا حصہ تھے ہی نہیں)
    اب یہاں یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ اس اصول کے تحت آج کے دور میں دعوت دین کی ہر سعی و جہد ایک بیگار ہے…اس لئے دنیامیں کفر وضلالت کا راج ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کی خو ڈالنی چاھئے
  3. سنت اور حدیث دو الگ الگ چیزیں ہیں..پہلے ایک معمولی لکیر کھینچی گئی تھی مگر اس کو اس قدر پھیلائی گئی ہے کہ سنت بالکل ایک الگ چیز ہے(وہ بھی محدود معنوں میں)اور حدیث قول صحابہ یا قول راوی ہے..یہاں یہ اصول مدنظر رکھیں کہ اسوہ رسول ص(سنت) جس ذرائع سے ہم تک پنچاہے..اس کو ہم لفظی ریکارڈ کہتے ہیں یعنی "حدیث”(اس ضمن یہ بات بھی نوٹ فرما لیں کہ روایت کی صحت پر بحث معروف فکر میں بھی چلتی رہی ہے..مگر انکار کی روش کسی نے نہیں اپنائی..اب کیا ہورہاہے کہ حدیث کا پورا ذخیرہ متنازعہ ٹھیرا کر خارج دفتر قرار دیا جانے لگاہے)یعنی سنت کا ہم تک پنچنے کا واحد ذریعہ قول اور راوی(صحابہ) ہیں..پھر حدیث کے مقام اور اہمیت کو گرانا کیا ثابت کررہاہے
  4. مکافات عمل کے اصول کے تحت”مسلمانوں پر چونکہ امریکہ.اسرائیل مسلط ہیں اس لئے ان کی حاکمیت کو تسلیم کرنا چاھئے..اور کوئی عزیمت کا راستہ نہیں اپنا چاھئے یعنی غلامی کا طوق برضا و رغبت اپنے گلے میں ڈالنا چاھئے
  5. قادیانی کو کافر کہنا یا قرار دینا غلط ہے..اگرچہ اس پر امت کا اجماع رہاہو
  6. اسلام کوئی ضابط حیات نہیں.”چنانچہ یہ چند انفرادی اصول دے کر خود ہی کنارہ کش ہوجاتاہے..لہذا ان کا ماننا ہے کہ اسلامی تہذیب کا مالا جپنے والوں کی فکر میں جھول ہے اسلامی سیاست و معیشت کو ری وزٹ کی صلیب پر مصلوب کرنا چاھئے
  7. تشدد کے جملہ عناصر اسلامی تحریکات کی پیداوار ہیں.لہذا ریاست کو اعلان کرناہوگاکہ وہ اپنا کوئی مخصوص نظام نہیں رکھتا سوائے سیکولرازم کے اور سیکولرازم عین اسلام کے مطابق ہے.خلافت نہ اسلامی اصطلاح ہے نہ کوئی مطلوب طرز حکومت

آخر میں احباب کے علم میں اضافہ کرتاچلوں کہ مشرف دور میں روشن خیال اسلام اور دقیانوسی مسلمان کا مؤجد بھی جناب غامدی صاحب ہی تھے اس صف بندی میں انھوں نے میڈیااور حکومتی مشنریوں کے ذریعے دقیانوسی اور جدید مسلمان کا غلغلہ بلند کروایا..نتیجہ سامنے ہے کہ من حیث القوم ہم فکری انارکی کا شکار ہوگئے ہیں

اختلاف کرنا سب کا حق ہے مگر خدا اور مصطفی ص اور اسلام کا معاملہ الگ ہے..یعنی دین کے تقاضے خاص ہیں..یہ بھنگڑ خانہ نہیں ہے کہ جس کا  جو جی چاھے کرتا پھرے اور اسلامی عقیدے پر کوئی فرق بھی نہ پڑے..جائز اصولوں کےتحت اختلاف جائز ہے.باقی رہنے بھی چاھئیں اور ہنستے بولتے ان کا گلدستہ بنا کے لطف اندوز ہونا چاھئے..مگر اس کو یوں بازیچہ اطفال کرکے نہیں…!!

آخر میں گزارش یہ ہے کہ درجہ بالاامور کو 80 فیصدی ترازو میں تولئے اور خود ہی اتفاق کرنے اور رکھنے کی گنجائش کا تعین کیجئے..اس کے باوجود پھر بھی ان کی نازبرداری جائز ہی ٹھیرے تو بقول غالب

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے