مسئلہ فلسطین پر بےحسی کیوں؟

جب فلسطین کا بندربانٹ ہورہاتھا تو اس وقت کیا کیا انسانی المیے جنم لینے لگے اس کی کچھ جھلکیاں،آرنلڈ ٹائن بی نے اپنی کتاب A study of History پیش کی ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح سے ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے،دیریاسین میں قتل عام کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں”عرب عورتوں،بچوں،اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس سڑکوں پر نکالا گیا۔” یہ سب ہیکل سلیمانی جیسے ڈرامہ کے نام پر کیا گیااور اب بھی ایسا ہی ہورہاہےمگر مجال ہے کہ مہذب دنیا کے ماتھے پر شکن بھی پڑی ہو۔ مسجد اقصی اور بیت المقدس ایسے نام ہیں جن کو سن کر ہر مسلمان اتنی ہی وارفتگی کا اظہار کرتے ہیں جتنا وہ مسجد حرم اور مسجد نبوی کے معاملہ میں حساس ہیں۔اس حساسیت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس معاملہ میں مزاحمت کو ترجیح دی ہے۔مسجد اقصٰی کو اسلام میں قبلہ اوّل ہونے کا شرف حاصل ہے۔جس کی طرف رخ کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ساڑھے 14 برس تک نماز پڑھی ہےاور جہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لےگئے تھے۔مسلمانوں کی بیت المقدس سے عقیدت ایسے ہی نہیں ۔اس کا ذکر قرآن اور اس کی فضیلت احادیث مبارکہ میں بیان کئے گئے ہیں ۔اس لیے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مسلمانوں نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا ہو۔البتہ مسلمانوں کے بےغیرت حکمران اس معاملہ میں دنیا کی بڑی قوتوں کا آلہ کار رہے ہیں۔اور ہم ایسے حکمرانوں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں ۔سلطنت برطانیہ اسرائیل کی صورت میں دنیا کو ایسا ناسور دے گیا کہ اب وہ رسنا بھی شروع ہوچکا ہے۔سرد جنگ نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کی تھی۔سرمایہ درانہ اور اشتراکیت بلاک  میں دنیا کا ایک بھی ایسا ملک نہیں تھا جو ان دو میں سے کسی ایک کا حصہ نہ رہاہو۔ان دو بلاک کے سرخیل ممالک دوسرے معاملات میں ایک دوسرے کے حریف بےشک رہے ہوں مگر اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کے متعلق اپنی تمام تر مخالفت اور مخاصمت کے باوجود یہ ایک دوسرے کے ایسے حلیف رہے ہیں کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔دنیا میں واحد اسرائیل وہ جارح ملک ہے جس نے اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کھدوائے ہیں”اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں”اب تک کے حالات اس بات کا غماز ہیں کہ انھوں نے اپنی اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔وہ اس وقت بالعموم اقوام عالم اور بالخصوص عرب ممالک کے سینے پہ مونگ دل رہاہے اور عرب ممالک کو آپسی ناچاقیوں سے فرصت نہیں مل رہی۔دنیا میں سوا ارب مسلمانوں کی بے وقعتی اور بےوزنی کا عالم نہ پوچھئے مگر وہ اس پر بھی سوچنے کو تیار نہیں کہ کیسی ایک چھوٹی سی ریاست دنیا کی دو بڑی قوتوں کو یرغمال بنا رکھی ہے۔اور ان سے جو کچھ کروانا چاہے کروا لیتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بڑی طاقتوں کا اپنے کاسئہ لیسوں کے متعلق ہمیشہ ایک ہی پالیسی رہی ہے کہ وہ ان کو زندہ درگور کرنے کے لیے قبریں اور کتبے دونوں تیار رکھتے ہیں۔آپ تاریخ عالم میں کسی بھی غدار اور کاسئہ لیس کو پڑھیں ۔وہ انہی قوتوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے  ہیں جن کے لیے وہ استعمال ہوئے تھے۔اور تاریخ کا یہ پہلو بھی بڑا دلچسپ ہے کہ کسی بھی ملت کی تاریخ اس طرح کے کاسئہ لیس اور غداروں سے خالی نہیں رہی ہے۔یہ بکاؤ مال مارکیٹ میں کبھی فرد کی صورت میں اور کبھی ملکوں کی صورت میں بکنے کے لیے ہر وقت دستیاب رہے ہیں۔ روس کا عرب ممالک اور امریکہ کا پاکستان کے ساتھ سابقہ اور حالیہ رویہ ان کے اس بھیانک چہرے کو سامنے لانے کے لیے کافی ہے۔یوگو سلاویہ کے ایک ڈپلومیٹ کا یہ تبصرہ بڑا سبق آموز ہے کہ”ایک بڑی طاقت جب تمہارا ساتھ چھوڑتی ہے تو وہ تم کو پیرا شوٹ کے بغیر ہوائی جہاز سے گرا دیتی ہے” ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ پالیسی بیان کے بعد پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ کو خارش شروع ہوچکی ہے اور وہ یہ باور کرانے میں ہلکان ہوئی جارہی ہے کہ یہودی یہاں کے اصل باشندے ہیں سو اس خطے پر ان کا حق بنتا ہے۔ہر طرح کی تاریخ سے نابلد یہ طبقہ اس قوم کے شعور پر ایک سوالیہ نشان ہے۔کہ یہ کونسی جنس اس ملک میں پیدا ہورہی ہے. پاکستان سے لیکر فلسطین تک یہ نوشتہ دیوار ہے۔تباہی مزید مقدر ہے جب تک ہم بڑی قوتوں کے کاسئہ لیس حکمرانوں سے نجات حاصل نہیں کریں گے ذلت،زوال،بربادی ہمارا مقدر ہی رہیں گے-

Print Friendly, PDF & Email