چترال میں گڈگورننس کا تماشہ

علامہ محمد اقبال نے جدید جمہوری نظام میں بگاڑ کے اسباب گنواتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت محض گنتی کا ایک کھیل ہے اور اس کھیل کی بساط بچھانے کے لیے کچھ مہروں کی ضرورت پڑتی ہے جسے عرف عام میں سیاسی پارٹی کہا جاتاہے۔مگر اس نظام کی عمارت کھڑی کرنے میں گارے مٹی کی حیثیت صرف ہمارے بیوروکریسی کو حاصل ہے جس کو اردو میں افسر شاہی کے نام سے جانا جاتاہے۔آج کی جمہوریت گنتی کی منزل سے آگے تولنے کے مرحلے میں کب کے داخل ہوچکی ہوتی اگر ہمارے یہ افسر شاہی نہ ہوتے۔یہ طبقہ دورِ غلامی کی باقیات میں سے ایک ہے جس کو ہنوز ہم سینے سے لگائے رکھے ہیں۔قارئین یقیناً جانتے ہونگے کہ جب برٹش اقتدار اپنا بوریا بستر سمیٹے برطانیہ واپس چلے گئے تو انھوں نے برصغیر میں ان کی نمائندگی پر مامور تمام بیوروکریٹس کو بیک جنبش قلم فارع کرکے گھروں کو بھیج دیا تھا۔کیوں؟
جواب بڑا واضح ہے۔
اچھی طرز حکمرانی(گڈ گورننس) کا خواب دیکھا کر یہ سامری ہم سے اس بَچھڑے کی پوجا کرواتے آرہے ہیں۔حقیقیت یہ ہے کہ اس نظام کا چہرہ روشن اور باطن ظلمات میں ڈوبا ہوا ہے۔میں اس نظام کا قائل ہونے کے باؤجود آج کیوں اس پر نِشتر چلا رہاہوں؟ ان چند سالوں میں اس نظام پر میرا یقین کیوں ڈگمگا گیا ہے؟اس بے یقینی کے مظاہر ہر سو پھیلے ہوئے ہیں۔اس ملک میں آمریت اور جمہوریت میں اب کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔
وقت کا صفحہ پلٹائیے اور پانچ سال پیچھے جائیں تو ہمارے ہاں تبدیلی والوں کی حکومت قائم ہوگئی۔اس کے بعد ہمارے ہاں اصلاحات لانے کا ایک نہ ختم ہونے والا دور شروع ہوااور حالیہ ان عرصوں میں ہمیں صرف اصلاحات کا ہی درشن نصیب ہواہے اور کچھ نہیں۔اداروں میں جھانک لیں تو ان اصلاحات کا پول کھل کر آپ کے سامنے آجائے گا۔یہ گھنٹی کو اپنے ہاتھ میں لیے کھڑے رہے اور بلی بہت کچھ کھا گئی۔
زیل اخبار کے قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ ان کی صحافتی ٹیم نے کچھ عرصہ پہلے ڈپٹی کمشنر آفس چترال (ڈی سی) کی طرف سے مشتہر کیے گئے عہدوں کے لیے چترال میں منعقدہ ٹیسٹ میں ایک بڑے اسکینڈل کا انکشاف کیا تھاجس میں تمام شواہد بھی سامنے لائے گئے تھے۔اس ٹیسٹ میں قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑانے کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے گئے۔یہ ساری تفاصیل زیل ویب نیوز سے اب بھی ملاحظ کی جاسکتی ہیں۔
جب اس معاملہ پر شور مچایا گیا تو جناب ڈی سی صاحب نے متعلقہ ادارے(PTS) کے خلاف تحقیقات کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔تحقیق ہوئی یا نہیں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بھی دوسرے اعلانات کی طرح محض اعلان ہی ثابت ہوا۔ٹیسٹ کے نتائج جیسے تیسے قبول کیے گئے اور دوسرے مرحلے میں کامیاب امیدواروں کو ٹائپنگ ٹیسٹ کے لیے بلاوا بھی آگیا۔توقع تھی کہ شاید اس مرحلے میں شفافیت سے کام لیا جاتامگر تحریری ٹیسٹ میں پہلے کے چھ درجہ پر فائز امیدواروں نے شکایات کے انبار لگا دئیے۔ کی بورڈ کے ناقص ہونے اور کچھ مک مکا یعنی "اپنوں” کو آگے کرنے کا الزام لگایا گیا۔ٹیسٹ کا آخری مرحلہ انٹرویو کا تھا۔اس پر مچائے گئے واویلے کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ جناب ڈی سی نے اپنے سرکل سے باہر دوسروں کو بیٹھا کر میڈیا کے سامنے ان کا انٹرویو لیا۔اس وقت ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب آخری مرحلہ تک رسائی پانے والے بھی مطلوبہ معیار سے کورا نکلے۔شنید تھی کہ جناب ڈی سی صاحب اس پر اپنے ادارے کے منتظمین کے خلاف تادیبی کاروائی کرتے مگراس پر متعلقہ ادارے کی طرف سے شنوائی نہ ہونے پر آخر کار تحریری امتحان میں نمایاں پوزیشن ہولڈر امیدواروں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے اس پر مزید بات مناسب نہیں ہوگی مگر اس معاملہ میں شروع سے لیکر آخر تک جس طرح اصولوں کی پامالی دیکھنے کو ملی اس پر متعلقہ حکام کی خاموشی سے بہت سے سوالات پیدا ہوچکے ہیں۔امید ہے کہ عدالت اس معاملہ کی شفاف انکوائری کرائے گی تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے۔
فی الحال ایک لطیفے کے پیرائیے میں صوبے میں طرز حکمرانی سمجھنے کو کوشش کرتے ہیں۔
تسلیم کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کے پی میں کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن جیسا نقشہ ہمارے انصافی دوست کھینچتے ہیں، اسے سن کر ایک لطیفہ یاد آجاتا ہے۔
پانچویں جماعت کی اردو ٹیچر بچوں کو "میرا وطن” کا مضمون املا کرا رہی تھی۔
پیارے بچو! لکھو:
"میرے وطن کا نام پاکستان ہے۔ یہ 14 اگست 1947ء کو بنا تھا۔ ہمارے وطن میں رہنے والے سب پاکستانی ہیں۔ یہاں کے لوگ آپس میں بہت پیار محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہر طرف امن و امان ہے۔ ہمارے وطن میں "۔
اتنے میں پچھلی نشستوں سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی۔ ٹیچر نے حیرانی سے پوچھا:
"کیا ہوا ببلو؟ آپ کیوں رو رہے ہیں؟
ببلو نے ہچکیوں کے درمیان کہا:
"مس مجھے بھی پاکستان جانا ہے۔”
آج کل ہماری حالت بھی اس جیسی ہی ہے۔وہ کے پی کے خلا میں ہو تو ہو برسرزمین موجود کے پی کے تو کچھ اور کہانی پیش کررہاہے۔

Print Friendly, PDF & Email