ہمارے نمائندگان اور محکمہ واپڈا کے "الہامی” بل

ہم من حیث القوم قومی بالغ نظری کے اس مقام تک نہیں پہنچے ہیں جہاں ہم اصولوں کی بالادستی اور رومانوی ہیروشپ کی پستی کو الگ کرکے دیکھ سکیں۔ریاست سے لے کر سیاست تک،اداروں سےلے کر سماج تک،عام فرد سے لے کر خواص تک،اہل خرد سے لے کر اہل جنوں تک ہماری نسبتیں اصولی نہیں رومانوی ہیں۔قومی بالغ نظری کا اوّلین تقاضا تو یہی بنتا ہے کہ ہم حکومتوں، ادروں،عوامی نمائندوں اور عام فرد کو کارگردگی کی کسوٹی پر پرکھیں اور اس بنیاد پر ان سے اپنی نسبت ٹھہرائیں۔مگر پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اس اصول کی نفی کررہی ہے کہ رومانوی ہیروشپ کی پستی کو سینے لگائے یہ قوم روز بروز مزید ابتری کی طرف جارہی ہےمگر اس لت سے نکلنے کے لئے تیار نہیں۔پاکستان میں اس مثال کو سمجھنے کےلیے عوام کا پی پی پی اور ن لیگ جیسی پارٹیوں کو آزمانے کا نہ ختم ہونے والا تجربہ کافی ہے۔ ملک کے دوسرے شہروں کی طرح چترال میں بھی الیکشن اور سیاست کا بخار اپنی انتہا کو چھو رہاہے۔ایسے میں پِٹے ہوئے گھوڑے دوبارہ ریس کورس میں اترے ہیں اور اپنی لن ترانیوں،چکنی چپڑی باتوں کو لے کر عوام کو مزید پانچ سال بےوقوف بنائے رکھنے کے لیے پوری لگن سے محنت کررہے ہیں۔ عام فرد محکمہ واپڈا کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوکے دل مسوس لیے میٹروں میں جھانکتے نظر آتے ہیں۔اوور بلنگ کا یہ عفریت عوام کو ہر مہینے نگلتا جارہاہے مگر مجال ہے جو ہم نے سابقہ پانچ سالہ ادوار میں عوامی نمائندگی کے نام پہ مراعات سے فیض یاب شاہانہ طرز زندگی گزارنے والوں سے یہ پوچھنا گوارا کیا ہو کہ جناب ووٹ مانگنے سے پہلے اپنی کارگردگی تو پیش کیجئے کہ آپ نے کس حد تک واپڈا محکمے کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی۔چند آلہ کار کے تالیوں کی گونج میں افتتاحی تختیوں میں نام چڑھانے کے شوقین حضرت سے اب بھی پوچھئے کہ وفاق میں لے دے کے آپ کے پاس ایک ہی محکمہ تھا اس پر آپ نے چترالی عوام کو کیا ریلیف دلوائی۔ محکمہ وپڈا جو کہ اب باقاعدہ محکمہ غنڈہ بن چکا ہے۔وہاں شکایت لے کے جائیں تو وہ میٹر ریڈر کی کم یابی کا رونا روتے ہیں۔یہ واحد ادارہ ہے جو اپنے صارفین کو دو ہاتھوں سے ہی نہیں دو پاؤں سے بھی لوٹنے میں لگا ہوا ہے۔میٹر چیک کے بغیر”الہامی بل“ ایسے بلا خوف و تردد بھیجتے ہیں جیسا ان سا ایماندار اور کام سے وفادار محکمہ روئے زمین پر نہ ہو۔ یہ دعوی بےجا نہ ہوگا کہ اگر کہا جائے کہ لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں سب زیادہ ہم چترالی متاثر تھے۔اللہ اللہ کرکے جب چترال ہی میں بجلی کی پیداواری سلسلہ شروع ہوا تو لگا کہ اب شاید عوام چین کی نیند سوئے گی۔مگر عوام کو سب سے پہلا ٹیکہ اس محکمہ کی طرف سے یونٹ کی قمیتوں میں اضافہ کی صورت میں لگایا گیا۔ہوائی کارگردگی کا حامل ایم این اے صاحب اس وقت بھی غائب رہے اور مقامی قیادت بھی ستُو پی کر سوئی رہی۔اس کے بعد اچانک لوڈشیڈنگ کا سلسلہ پھر سے شروع کردیا گیا جو ہنوز جاری ہے۔سابقہ وفاقی اور صوبائی مقامی نمائندگان کی موجودگی اس قدر بےمعنی کیوں تھی؟اب وہ اور ان کے آلہ کار جو دوبارہ ان کی موجودگی کو ناگزیر سمجھتے ہوئے عوام کے ہاتھ پاؤں پکڑے ہوئے ہیں۔آگے جاکر کونسا تیر ماریں گے کہ پورے پانچ سال ان سے ایک محکمہ قابو نہیں ہوسکا۔ان جیسوں سے احتساب لینے کے لیے فرشتے آسمان سے نہیں اتریں گے۔۔اس کے لئے عوام کو ہی اٹھنا ہوگا۔۔مگر یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب عوام”الہ کاروں“ کی سطح سے اوپر اٹھ کر قومی بالغ نظری کا ثبوت دے اور ذاتی مفادات سے ہٹ کر اصولوں کی بالادستی کو فوقیت دے۔یہی مسائل کے حل کا شاہ کلید ہے

Print Friendly, PDF & Email