مذہبی زندگی اور تخلیقیت

اگرچہ موجودہ تحقیق کی رو سے مذاہب انسانوں کی متواتر حیرت، خوف، عدم تحفظ، رجائیت اور تنہائی سے ابھرے ہے لیکن مذہب انسانی تہذیب کا ایک کنٹری بیوٹر ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مذہب اب بھی انسان کی نفسیاتی، سماجی اور سیاسی زندگی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ مذہبی طرز زندگی نے ہمارے انفرادی اور اجتماعی طرز زیست، رنگ ڈھنگ اور تخلیقی اظہار کو متاثر کیا ہوا ہے۔ یہ اثر اپنے جوہر میں تعمیری بھی ہے اور تخریبی بھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی زندگی تخلیقیت کے فروغ میں مثبت کردار آدا کرتی ہے اور ہم کس طرح مذہب کے تعمیری پہلو کو لے کر سماج سازی میں کردار آدا کرسکتے ہیں.

میری طالب علمانہ سمجھ کے مطابق مذہبی زندگی کے چار ادوار ہے جو حسب زیل ہو سکتے ہے ممکن ہے آپ اس سے اتفاق نہ کریں اور یہ ضروری بھی نہیں کہ جو میں نے لکھا ہے واقعاتا یہی فیکٹ ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کے مشاہدے کہ اس عمل میں آپ بھی میرے ساتھ شریک ہوں۔

  1. state of belief
  2. state of exploration & independent investigation
  3. state of discovery
  4. state of creativity

مذہبی زندگی کے پہلے درجے میں ہم مذہبی ٹیکسٹ، بنیادی عقائد اور مذہب کے سوشل فریم ورک پر عقیدت و احترام کے ساتھ عمل کرتے ہے جو ہماری انفرادی اور اجتماعی تنظیم کرتا ہے۔ یہ پہلو نہ صرف ہمیں گروہی شناخت دیتا ہے بلکہ سینس آف بی لانگینگ کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کو معنویت بھی عطا کرتا ہے۔

مذہبی زندگی کے دوسرے درجے پر ہم ان مروجہ اعمال اور اظہار پر تعمیری سوال اٹھاتے ہیں کیونکہ مسلسل اعتقادی عمل انسان کو میکینیکل بنا دیتا ہے اور زندگی کی حرکیات میں جمود کے عنصر کے شامل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لہذا یہ ضروری امر ہے کہ دوسرے درجے میں ہم سوچنے، تدبر کرنے اور آگہی کے عمل کے ساتھ زندگی کی گوناگوں پہلوؤں سے متعلق اپنی فہم و ادراک میں اضافہ کرتے ہے اور زندگی کے ہر  ڈائمینشن کی اہمیت و افادیت کا ادراک کرتے ہیں اور ہر پہلو کو اس کی اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے حیات کی سرگرمی میں آگے بڑھتے ہیں۔

مذہبی زندگی کے تیسرے درجے پر ہم دریافت اور نئے پن کا تجربہ کرتے ہے جو ہمیں ایک متوازن زندگی اور گوناگونی کے احترام کے ساتھ ہمیں ہمارے زات کی پراسرار قوتوں سے روشناس کراتا ہے یہ دور بہت ہی اہم ہے کیونکہ اس میں فرد ایک تخلیقی اڑان کی جانب رواں دواں ہوتا ہے۔

مذہبی زندگی کے چوتھے درجے پر ہم اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا آزادانہ اظہار کرتے ہے جو ہماری مجموعی ثقافتی ماحول کے اندر تلخ و شرین تجربات کی عکاسی کرتا ہے جس میں ہم اپنا وجودی اظہار کرتے ہے۔ یہ اظہار اپنے اندر صوفیانہ پن، شاعری، موسیقی، رقص، احترام انسانیت اور سب سے بڑھ کر محبت کے رویئے کو اجاگر کرتاہے۔

نیز مذہبی زندگی کے ان درجات سے ہوتے ہوئے فرد اس بات کا ادراک کرتا ہے جو شئے یا عمل میری شخصیت کو مستحکم کرتا ہے وہ خیر ہے اور جو شئے یا عمل میری شخصیت کو کمزور کرتا ہے وہ شر ہے۔ اور یہی نکتہ مذہبی فرد کی اجتماعی زندگی کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ بحیثت انسان ہم سب ایک ہے جیسا کہ سعدی اپنی کتاب گلستان میں لکھتے ہے کہ

"بنی آدم اعضای یک پیکرند

که در آفرینش ز یک گوهرند

چو عضوی به درد آورد روزگار

دگر عضوها را نماند قرار”

نہ صرف یہ بلکہ انسان ان تخلیقی رویئوں اور اعمال کو اپناتا ہے جو انسانی فطرت اور اجتماعی خیر سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اور یوں ایک مذہبی فرد مذہبی زندگی کے تخلیقی اور تعمیری پہلوؤں کو لے کر سماج سازی میں اپنا کردار آدا کرتا ہے۔ باقی مذہبی زندگی کی گونا گونی اور ہمہ جہت پہلوؤں کے حوالے سے آپ کمنٹ میں اپنی رائے سے آگاہ کرسکتے ہیں۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email