کائنات کا آخری اداس گیت

کارخا نہ قدرت میں ہر وجود قدرت کی مدح میں گیت گاتا نظر آتا ہے۔ یہ گیت خوشی کا بھی ہوتا ہے اور اداسی کا بھی۔بے بسی کا بھی ہوتا ہے اور امید کا بھی  ۔ انسانی نالوں کی آہ بھی موسیقی کی روح چھونے والی سروں کے احساس سے کم نہیں۔  اب کون نجات کو پہنچے اور کون داد رسی وصول کریں۔ جب سب مفادات اور کھانے کی ہوس اور انا کے پجاری بن کے سر منڈلاتے رہتے ہوں۔ کوئی امید بھر آتی نظر نہ آئے۔ تو تخلیقیت درد کی صورت میں ظاہر ہوتی ہےاور  انسان کی اندرونی کائنات کو کچھ کرنے پر اُکساتی ہے، یہ زندگی کے نغمے اور کرہ ارض پر مصروف رہنے کے سب بہانے درد کی توسط سے تو ہے۔  کائنات کا  آخری  گیت اُداسی ہے، شاعری اس کی سب سے بڑی قسم ہے،  کیونکہ میں شاعر ہوں۔

انسان کا نوحہ پڑھنے والے بہت ہے، تب ہی تو انسانیت نوحہ خوان ہے، نہیں تو انسان جینے کی آرزو رکھتا ہے، انسان خوشی کے نغموں پر یقین رکھتا ہے، روح نے عبادت کرنا چھوڑ دیا تو کوئی بات نہیں، اس میں محبت کی انتہا تو ہوگئی، کیونکہ وہ اپنے رب کو قریب سے دیکھتا ہے، اور اس کے اثار اپنے گردو پیش کے حسن میں دیکھتا ہے۔ اب تو پوچھتا ہے کہ حسن کیا ہے، یہ کائنات اور سب کچھ تُو اور میں حسن  کا حصہ ہی تو ہے۔

ایک دفعہ ایک فقیر سورج کی تپش میں اپنے جیسے آدمیوں سے اپنے کارساز اور اس کائنات کے بنانے والے کے نام پر  مانگ کر اپنے پیٹ کی پیاس بجھانا چاہتا تھا۔ خدا کے بندے نے اس کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ان کے پیچھے بڑا مافیا ہوتا ہےاور دینے سے انکار کیا۔ اس خدا نے بے بس اور بے کس انسانوں کی ذمہ داری کس کے سپرد کی ہے، میرے اور تیرے، اور وہ سب لوگ جو زندگی کو جیتے ہے اور جو خو ش ہے، کیاآپ کا نہ دینا ہی اچھا نہیں تھا ، جو ایک فقیر کو مجرم ٹھہرایا۔  کیایہی انسانیت رہ گیا ہے۔ اپنے حصے کی شمع ہر ایک کیوں نہٰیں جلاتا۔

واقعی میں، جب کاروانِ زندگی میں  لوگوں کا جینے کا حق کوئی چھین لیں اور اس سے اپنے بہشتی ہونے کی ضمانت دیں تو اس سے اور بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے۔ جو معصوم ہوتے ہیں اور دوسری جانوں کے کفیل ہیں ۔ ان کو ایسے کیسے جہنم واصل کر سکتے ہیں۔ جب کہ یہ فیصلہ خدا کہ ہاتھ میں ہے۔ اب تو آدمی خدا کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے رہا ہے۔ کائنات کا آخری اداس گیت واقعی مایوس کن ہے۔ میں بدلتے چہروں، مطلب کے رشتوں ، خلوص کے دشمنوں اور سچ کے مسخ شدہ صورتوں سے بیزار ہوں۔ انسانی سیاست کے کھیل اور

ا س  کے ذریعے روح عالم کو مجروح کرکے اپنی دکانین چمکانا بہت ہی تکلیف دیتا ہے ، لیکن اہل قلم صرف شعور کی تشنہ کامی کرسکتا ہےاور تو اور ان میں سے حق گو نہیں چھوڑا گیا، یا پھر مفادات کی صحراؤں میں لا پتا کیا گیا ۔ کیا یہی امید ہے ، جو ہم دوسروں سے کرتے ہے،

ثنائے معصوم یہ تقاضا کرتا ہے، کہ کا ئنات میں کرہ ارض جو کہ واحد جیون کی بہشت ہے،  محبتوں اور انسانی

خلوص اور سچ کی زمین ہونی چایئے۔ کیونکہ اس سے ہی امید ہے، حوصلہ ہے ، خوشی کا نغمہ ہے۔ امن ہے، انسانیت ہے، بھائی چارہ ہے ، ہوس نہیں امنگ ہے، نئی فکر کا شعور اور آگہی کے لالٹین چمکیں گے ، لیکن اس کیلئے روح کی سچائ اور شعور کی بیداری کو زندہ کرنا ہوگا۔

انسان نے اپنے لیے دنیا میں اداسی کے گیت ہی تخلیق کیئے، جہنم کے خوفناک مناظر سے لے کر جنت کی حسین وادیوں تک کی داستان اور انسانی روح کے سفر آخرت اور بلیک ہول کو پار کرکے دوسری دنیا کی منتقلی کی عجیب و غریب باتیں سب کچھ خوشی اور ناخوشی کے بیج اُداسی اور اُمید کے بدن سے پھوٹتے رنگ ہی تو ہے۔

ہم نے زمین کے تصورات کو آسمانی بنا دیا۔ پھر آسمانی ہیچ کو زمینی بنا دیا۔ ہم نے کیا کیا نہ کیا ، بہر حال یہ مسّلم ہے کہ جو کیا بھلے کا سوچ کے کیا، لیکن محتاج لفظ انسان اس پر نادم بھی ہے، اور ساتھ ساتھ افسردہ بھی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات کا آخری اداس گیت قبروں تک آدمی کے ساتھ جائے گا۔ یہ زندگی حصے ہیں خوشی اور ناخوشی کےاور گوتم بدھ نے بھی بجا کہا تھا کہ سب کچھ دُکھ ہے۔ واقعی میں اداسی ہے تو خوشی ہے، تب

ہی تو کائنات کا آخری اداس گیت یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم انسان کی قدر کرتے ہوئے خوشی کے اصول تخلیق کریں۔

اور  توازن کا راستہ اپنا کر ہر خوشی کو خوشی بنا دیں۔ تاکہ اداسی رحمت بن جائے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے