ہم لکھتے کیوں ہیں۔ دوسری قسط

لیکن جب تک خدا اور اس بندے کا ضمیر اس کو جھنجوڑ نہ دیں تو ہمارا اور آپ کا کیا بس چلتا ہے۔ اب آتیہیں۔ دوسرے طبقے کی طرف جو کہ اپنی زندگی اور خوشیوں کو انسانیت اور انسان کی شعوری اصلاح کے لیے وقف کرتے ہے۔ اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر سماج میں خیر کا کوئی عنصر پایا جاتا ہے تو ان کے زور قلم کے خوف سے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ظلم و بربریت کا راج ہو۔ جہالت نغمے سنا رہا ہو۔
ریاست اپنی مفادات کی خاطر لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلواڑ کررہا ہو۔ انسا نی جان کی قدر نہ ہو، اور زندگی کی قیمت نہ ہو۔ اور سوچ اور تخلیقی فکر پر پابندی ہو۔ اور لکھنے والوں کے لیے حالات ایسے ہو کہ ان کو دردر کی ٹھوکریں کھانے پڑیں۔ سیاست کو عوام کی خیر اور خدمت کی بجائے گالی اور جھوٹے وعدوں تک محدود کرکے اپنی طاقت اور اثرورسوخ جمانے میں استعمال کیا جاتا ہو تاکہ مغلوب عوام کو اور غلام اور پست رکھیں۔ غرض جتنے الفاظ جھوٹ ، فریب اور شر کے لیے استعمال ہوں ان سے بھی بد تر معاشرے کی حالت ہو۔ اور نہ صرف یہ بلکہ مذہب کے نام پر بھی لوگوں کو لوٹا جارہا ہو۔ تو بلا ایسے سماج کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔تب ہی کچھ لوگ سماج میں نکلتیہے جو آواز اٹھاتے ہیں، اورسچائی کا علم بلند کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے یا پھر ان کو لاپتہ کیا جاتا ہے۔ ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی اپنی انسان دوستی اور محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔ اور سماجی اصلاح کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ جن کو زبان عام میں لکھاری کہتے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی خوب کہتے ہیں۔ ‘‘اندھیری راتوں میں آسمان پر تارے چمکتے ہیں۔ اور ہلکی ہلکی روشنی دیتے ہیں، مگر یہ اندھیرے کو دور نہیں کرسکتے ہیں۔ تاریکی ان پر غالب رہتی ہیں۔ یہی حال ہمارے معاشرے میں دانشوروں،سماجی اور سیاسی کارکنوں کا ہیکہ جو اس سماج کو بدلنے کی ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ انسان مخلوقات میں اعلیٰ درجے کی نمائندگی کرتا ہے اور اس درجے پر اپنی سوچ اور علم کی وجہ سے ہے۔ چونکہ ایک لکھنے والاانسان کی اس حیثیت کو برقرار رکھنے اور اس کی شعوری اصلاح کے ساتھ ساتھ ایک بہتر زندگی گزرانے کے رستے ہموار کرتا ہے۔ لہٰذا ایک لکھاری کا کردار اہم ہوتا ہے ، اور بحیثیت لکھاری اپنے حصے کے شمع جلانا ہے چاہے ہمیں اپنی زندگی ، خوشی اور وقت کی قربانی کیوں نہ دینی پڑیں۔

Print Friendly, PDF & Email