اصولوں کے بغیر سیاست

افلاطوں نے بجا فرمایا تھا۔ کہ ریاست پر حکمرانی کا حق فلسفیوں کایعنی  صاحب علم و دانش کا ہے ، کیونکہ یہ زرو دولت اور حرص و لالچ سے ماوارء ہوتے ہیں۔ یہ اصول و قوانین بنانے والے ہوتے ہیں اور قوانین بھی ایسے جو ریاست کے عوام کیلئے باعث خیر ہوں۔ اور ان پر عمل در آمد اپنے مثالی کردار ، فکر و عمل اور پھر  قانون کا سب کیلئے یکساں ہونا جیسے خیر کے صفات کی تشکیل ہے ۔

کسی بھی ریاست اور سماج میں اصول و قوا نین کا کردار نہایت ہی اہم ہوتا ہیں۔ اصول و قوانین کسی بھی ریاست اور سماج میں فرد کے ریاستی، اجتماعی اور انفرادی اعمال کی اصلاح ہیں۔ کیونکہ انسان ایک سماجی حیوان ہے، سماج سے الگ ایک فرد کی زندگی بے معنی ہو جا تاہیں۔  اجتماعیت اور انسانی اقداار کے فروغ کے ساتھ ساتھ  اندیشہ شر و فساد کو ختم کرنے اور ایک خوشحال معاشرہ اور ریاست کا خواب یہی قوانین و اصول طے کرتے ہیں۔

جہاں تک ریاست کی بات ہے تو ریاست ایک قطعہ زمین میں الگ رہ کرکچھ نظریات اور تہذیبی و ثقافتی خوبصورتی  رکھنے والے لوگ اپنی ایک شناخت قائم کرتے ہیں، اور اس ذریعے سے کچھ اصول و قوانین بنا کر اپنی اس اجتمایت کو ریاست کی شکل دیتے ہیں۔ اور خوشحالی کا خو اب دیکھتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ  بھی ہوتاہو۔ لیکن چند فطری مسائل جیسے غربت، افلاس ، اور دوسرے سماجی مسائل پر  حتی الامکان قابو پایا جاتا ہیں۔

مملکت پاکستا ن بھی مختلفیت کے باعث وجو دمیں آیا۔  دو قومی نظریہ بھی مسلمانوں اور ہندووں کے رنگ و نسل ، مذہب، تہذیب و ثقافت میں الگ حیثیت رکھنے کے باعث وجود میں آیا اور پاکستا ن کی تخلیق کا سبب بنا۔ اگر چہ آج دنیا گونا گونی اور تکثریت پر یقین رکھتی ہیں۔ اور پہلے بھی برصغیر پاک و ہند میں مسلمان اور ہندو ہی رہتے تھے، اور انھوں نے اس مختلفیت کو  تعصب کی نگاہ سے نہیں بلکہ محبت کی نگاہ سے دیکھ کر مل کر رہتے تھے۔ اور ایک بہت لمبا عرصہ ہندوستان میں مسلمان مغل بادشاہوں نے حکومت بھی کی۔

مملکت خداداد مختلف نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے آج بھٹو اور شریف خاندان کے ہاتھ لگا ہے۔ ویسے بھٹو خاندان کے گھوڑے کا لگام زرداری صاحب کے ہاتھ آیا ہیں ، اور ان صاحبان نے ایسے اصولوں پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں،کہ جن سے ان کی موروثی سیاست کو کسی کی بری نگاہ بھی نہ لگے۔ اور رعایا کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے قرضے اور بینظیر انکم سپورٹ پرگرام جیسے اسکیموں سے عوام کو بھیک دے کر جیسے احسان کر رہے ہوں۔

حالانکہ ریاست کے رہنما رعایا کے خادم ہوتے ہیں، اور انھیں اپنی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ریاست کی خوشحالی کو مملکت بنانی چایئے۔ لیکن صد افسوس کے ایسا کبھی ہوتے دیکھنے میں نہی آیا۔

جملہ آخر یہ کہ مملکت پاکستا ن میں اشرافیہ اور  حلقہ اختیار قانون سے بالا تر ہو کر جیتے ہیں، اور ان کی طاقت روز بہ روز بڑھ رہا ہیں، اور بچارے عوا م روز اول سے ان کو سہہ رہے ہٰیں۔  اور یہ اصولوں کے بغیر سیاست کرکے صرف اپنی دکانین چمکا رہے ہیں ۔ فیصلہ سچ کی حمایت کرنے والوں سے ہوگا۔ کیو نکہ یہی حقیقی انقلاب و تبدیلی  کے وارث ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے