ہیروپرستی اور سماج

سماج انسان کے لیے  ہوتا ہے اور انسان سماج کے لیے نہیں ہوتا۔  لیکن ہمارے سیاق میں سماج نے انسان کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا  ہے ۔ انسانی سماج میں گوناگونی ہوتی ہے، سماج ایک تکثیری تصور کا آئینہ دار ہے، لیکن ہیرو کا تصور اس مختلیفیت کو رد کرکے اجتماعی شعور کو ایک زاویئے میں پرونا چاہتا ہے۔  ہیرو کا تصور تحت الشعور معاشروں میں بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ اس کا سبب ذہنی پستی اور ذاتی تجزیہ و تحقیق کا فقداں ہے جس سے لوگ جذبات میں آتے ہیں اور کسی شخصیت سے متاثرہوکر ان کواپنا مرکز بنا لیتے ہے۔ اپنی ہستی کو فراموش کرکے اپنی صلاحیتوں کو ہیرو کے سپرد کرکے اس سےاعظیم تر بنا دیتے ہے۔

تاریخ میں جب فکر سے زیادہ عمل پر زور دیا گیاتو نتیجے میں وہ لوگ جو اپنی عمل سے دنیا میں تبدیلی لائےتاریخ میں  ہیرو بن گئے۔ جن میں ہٹلر اور نپولین جیسے لوگ شامل ہیں ۔ لیکن ہیگل کا یہ خیال ہے کہ ان شخصیات سے یہ کام فطرت لیتا ہے۔پھر فطرت اپنا منصوبہ مکمل کرنے کہ بعد ان کو چھوڑ دیتاہے۔ جیسا کہ ہٹلر نے خودکشی کی اور نپولین کتنے بے بسی سے آخری آیام سینٹ ہیلینا میں گزارے۔لیکن لیو ٹالسٹائی کا خیال مضحکہ خیز ہے۔

بقول لیو ٹالسٹائی عظیم افراد یا جنہیں ہم ہیرو کہتے ہیں ، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے ۔ یہ معمولی اور ناواقف لوگ ہوتے ہیں ، جو یہ دعوٰی تو ضرور کرتے ہیں کہ وہ اس قابل ہیں کہ تمام ذمہ داریوں کو نبھا سکتے ہیں ، مگر ان میں اتنی سمجھ اور عقل نہیں ہوتی کہ اپنی بے وقعتی کو تسلیم کرلیں اور یہ بھی تسلیم کرلیں کہ بڑا آدمی، فرد یا ہیرو اس جانور کی طرح ہوتے ہے جسے ذبح کرنے یا قربانی کے لیے فربہ کیا جاتا ہے ۔ اس کے گلے میں جو گھنٹی ہوتی ہے اس کے بجنے سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ پورا ریوڑ اس کی آواز پر حرکت کررہا ہے اور وہ ان کا راہنما ہے مگر اس کا کردار راہنمائی یا لیڈر کا نہیں ہوتا ہے بلکہ قربانی کا ہوتا ہے ۔ مگر یہ ہیرو اور عظیم افراد اس راز کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ۔ آخر میں قربان گاہ تک پہنچ کر وہ خود کو مجبور اور اپاہج پاتے ہیں ۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے کہ جب وقت گزر چکا ہوتا ہے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آتا ہے ۔

قابل غور بات  یہ ہے کہ ہیرو بنانے والے بھی سماجی حالات اور لوگوں کی انٹرسٹ کو دیکھتے ہوئے ان شخصیات کا بول بالا کرتے ہیں جن سے اجتماعی تسکین اور بالائی طبقے کو ان کے مفادات حاصل ہوں۔ بچپن میں جب ہم پڑھتے تھے تو ہمارا نصاب پورا اسلامی تھا، پھر جب بڑے ہوگئے دیکھا تو نتیجہ اس کہ برعکس بر آمد ہوا۔ ہیرو وقت اور حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہےاور یوں سماجی ارتقاء میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تا وقتکہ  لوگ شعور کا خیر مقدم نہ کریں اور سماج کی بنیادوں کو قبولیت کی بجائے فکر، تدبر اور شعور پر نہ رکھیں ۔

ہیرو بنانے کا ایک عمل یہ بھی ہے کہ اگر زندہ لوگ حالات کے تقاضوں کے تحت اس معیار پر پورے نہ اُترتے ہوں تو اس صورت مین تاریخ سے ان ہیروز کو ڈھونڈ کر لایا جاتا ہے کہ جنہیں زمانہ عرصہ ہوا فراموش کرچکا ہوتا ہے۔ جب علماء نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو انہوں نے بھی تاریخ کی مدد سے اپنے ہیروز تلاش کیے۔ ان میں احمد سرہندی مجدد الف ثانی قابل ذکر ہیں کہ جن کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا کہ انہوں نے اکبر کے الحاد کا تن تنہا مقابلہ کیا ۔اسی طرح ایک ہیرو کے مرنے کے بعد یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی خوبیاں اور صلاحیتیں اس کے خاندان میں منتقل ہوگئی ہیں ، لہذا اس کا خاندان، اس کے نام پر معاشرے سے وہی وفاداری اور تابعداری کی توقع کرتا ہے ۔ جیسے پاکستان میں بھٹو کے اور انڈیا میں گاندھی کا خاندان ہے۔

ہیرو پرستی نہ صرف اجتماعی شعور کو نقصاں پہنچاتا ہے یہ جمہوریت مخالف ذہنیت بھی پیدا کرتا ہےاور فرد کی انفرادی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ چونکہ ہیروپرستی  کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہیرو کے آگے سر تسلیم خم کی جائے۔ کیونکہ  ہیرو غلطیوں اور خامیوں سے ماوراء ہوتاہے۔آج کی دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکا ہے جس میں ہم سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا مثبت استعمال کرسکتے ہے، ہم اپنی رائے اور اپنا تجزیہ دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہے۔ ہر انسان قابل احترام ہے۔ اگرہیروز  کے مقابلے  میں  ادارے قائم ہوتے ہیں   توہم دیکھتے ہیں کہ ان معاشروں میں کہ جہاں جمہوری روایات اور اداروں کا قیام ہوا، وہاں شخصیتوں کا کرادار بھی کم ہوتا چلا گیا، جیسے جیسے ادارے مضبوط ہوئےاسی کے ساتھ ہیروز کی اہمیت بھی کم ہوتی چلی گئی۔ اگر شخصیتوں اور اداروں کے درمیان تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ ایک خلا چھوڑ جاتی ہے اور معاشرے کو بحران میں مبتلا کردیتی ہےلیکن جب ادارے مضبوط ہوں تو ان کی بناوٹ ، ساخت اور کارکردگی میں پروفیشنل لوگ شامل ہوتے ہیں، جن کی ذاتی حیثیت اتنی اہم نہیں ہوتی ہے، جتنی کہ ادارے کی۔ مزید یہ کہ ادارہ میں ضرورت کے تحت برابر تبدیلی آتی رہتی ہے، تخلیقی صلاحیت کے نوجوان اس کو نئی زندگی دیتے رہتے ہیں ، اس لیے ادارہ کو نیا خون ملتا رہتا ہے ۔ حالات اسی وقت بگڑتے ہیں کہ جب کوئی ایک شخصیت ادارے کو محض اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے ، اس صورت میں ادارہ بھی زوال پذیر ہوجاتا ہے ۔

اس لیےیہ سوال کہ کیامعاشرہ کو ہیرو کی ضرورت ہوتی ہے ؟ اس کاجواب نفی میں ہے ۔ معاشرہ کا ہر فرد باصلاحیت ہوتا ہے ، اگر تعلیم ، صحت اور مواقعوں کے مطابق اس کی توانائی کو استعمال کیا جائے تو وہ معاشرے کی ترقی میں حصہ لیتا ہے ۔ موجودہ عہد میں معاشرہ اس قدر پیچیدہ ہوگیا ہے کہ اس کے مسائل کا حل اب پروفیشنل لوگوں کے پاس ہے ۔ ایک فرد چاہے وہ کسی قدر با صلاحیت ہو، اب تمام حالات پر نہ تو قابو پاسکتا ہے اور نہ حالات کو سمجھ سکتا ہے اسی وجہ سے اب افراد سے زیادہ اداروں کی ضرورت ہے ۔ شخصی حکومت زیادہ سےجمہوری حکومت، نظریہ کے تسلط سے زیادہ آزادی رائے اور فکر کی ضرورت ہے جو معاشرے کو آگے کی جانب لے جائے۔

Print Friendly, PDF & Email