عقل کا دائرہ

 

انسانی تہذیب عقل کی مقدس تنظیم کا نتیجہ ہے۔ انسان کی وجودی ترتیب اور شعوری ساخت عقل کی خیر اندیش کوششوں کا علمی اور عملی جامہ ہے۔ انسانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم عقل کی فیض رساں قوت کو ضرر رساں شر میں تبدیل کرنے میں زرا سی بھی دیر نہیں کرتے۔ اس کا سبب وہ بنیادی جبلتیں ہے جو ہمیں اکائی میں پروتی ہے اور تباہ کن جنگوں کا حوصلہ بھی عطا کرتی ہے۔

گزشتہ دنوں “زخم وجود “ کے عنواں سے میں نے ایک آزاد نظم لکھا تھا۔ جس میں رجائیت اور یاسیت کے تناظر میں رومی کو نٹشے پہ مقدم کرنے اور عقل کی منفی قوتوں پر سوال اٹھایا تھا۔ نظم حسب زیل ہے۔

“زخم وجود“

ہم نے عقل کی رہنمائی میں
قنوطیت اور یاسیت کا بیج بویا
یہ سطحی خیال
انساں کا حال بنتا جارہا ہے
ہر شئے کو ٹٹولنا ضروری تو نہیں
رومی کو نٹشے پہ مقدم کردو
زندگی میں یقین کا نہ ہونا
شاید خالق کی منشاء کے خلاف ہو
الوہیت ایک دھوکہ نہیں
بلکہ بلند تر ہونے کا احساس ہے
غیب پر میرا ایماں
زخم وجود کو بھر دیتا ہے

مدعا یہ ہے کہ انساں سبجیکٹیو ہے اوراس سبجیکٹیوٹی کے اپنے کچھ متعین کردہ حدود ہے جن سے انسان اپنے معتبر ہونے کا جواز پاتا ہے۔ جب ہم انسانی تنظیم کے مثبت اقدارکی بیخ کنی کرتے ہے تو نتیجے میں یاسیت کو فروغ ملتا ہے یوں نہ صرف ہم زندگی کی معنویت کا انکار کرتے ہیں بلکہ ایک قنوطی رویئے کے امکانات کو جلا بخشتے ہیں۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مقابلے کی اس دنیا میں ہم آہنگی ایک مذاق بن کہ رہ گئی ہے۔ وحدت کے خواب کی اس آنکھ مچولی میں انساں عقل کے دائرے سے نکل رہا ہے۔ گویا وجودی زوق اور انسانی خیر کی تمام تر کوششیں قنوطیت اور بے معنیویت کے گرداب میں ڈوب رہی ہے۔ انساں یہ بولتا جارہا ہے کہ عقل کا بھی ایک دائرہ ہوتا ہے۔ وہ اگر اپنی حد سے آگے بڑھتی ہے تو وہ الوہی چراغ کو بجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ یوں ہم اپنی سظح سے بلند ہونے کے آسمانی جواز اور زمینی حالت کو رمز نیستی میں ڈھا دیتے ہیں۔ اس تجاوز سے نہ صرف تہذیب کی قدریں بلکہ انسانی شعور کی خلقی بنیادیں بھی ہل جاتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email