اداریہ

یہ اداریے زیل نیٹ ورک نیوز کے خیالات کی ترجمان کے طور پر زیل نیوز میں شائع کئے جاتے ہیں۔ اگر آپ اس پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں توہمیں ای میل کرسکتے ہیں۔ آپ اپنی رائے اداریے کے نیچے کمنٹ کے طور پر بھی دے سکتے ہیں

چترال میونسپل ایڈمنسڑیشن۔ ذیل اداریہ

لوگ بلدیاتی انتخابات کو یاد کرتے ہیں تو ان کو بے ساختہ رونا آتا ہے۔ جب تحصیل میونسپل ایڈمنسڑیشن چترال کے انتخابات نہیں ہوئےتھے تو عوام کو اسی طرح کا مسئلہ کھبی پیش نہیں آیا تھا۔ انتخابات کے بعد میونسپل ایڈمنسڑیشن کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کیلئے فنڈ نہیں ملا تو صفائی کے عملہ نے احتجاج کیا۔ دو مہینے کے احتجاج کے بعد 2022 میں تنخواہیں ادا کی گئیں تو شہریوں کی جان میں جان آئی۔

اگست 2023 میں ایک بار پھر وہی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ صفائی کا عملہ ایک مہینے سے ہڑتال پر ہے۔ چترال ضلعی صدر مقام ہے اس کے بازار اور اطراف میں چاروں طرف گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ غلاظت اور کچرے کی بدبو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اس حال میں لوگوں نے 14 اگست کو یوم آزادی منایا، چراغاں کیا، آتش بازی کا مظاہرہ کیا۔ ضلعی انتظامیہ کے حکام نے ٹاؤن کی کوئی سڑک نہیں دیکھی، بازار کا کوئی چوک نہیں دیکھا۔ عوامی شکایت سننے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کو رپورٹ بھیجنے کا کوئی سسٹم نہیں ہے۔ ٹاون میں گھوم پھر کر ایسا لگتا ہے جیسے بڑی جنگ کے بعد دشمن نے اس کو فتح کیا ہے، پرانی انتظامیہ بھاگ گئی نئی انتظامیہ نہیں آئی۔

چترال ٹاون کا کوئی حاکم کوئی پرسان حال نہیں کمشنر ملاکنڈ، سکریٹری لوکل گورنمنٹ کو بار بار درخواستیں دی گئیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ ٹاؤن کی تاجر برادری اور ٹاؤن کے عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور کورکمانڈر پشاور سے درخواست ہے کہ صورت حال کا نوٹس لیکر کمانڈنٹ چترال سکاوٹس کی وساطت سے صوبائی حکومت سے فنڈ لیکر میونسپل کمیٹی کے ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ حل کروائیں اور ٹاؤن کے اندر درجنوں مقامات پر بدبو پھیلانے والی غلاظتوں کو صاف کروانے کا انتظام کریں۔ضلعی انتظامیہ نا کام ہوچکی ہے۔

شوم عادت – کھوار اداریہ

حقیقت یا افسانہ۔ سرحدو ای ڈرائیور برار کوغذیو روئے موٹرو راہو کاسینیان خبر بیکو کوسوم دیتی بلاہار ݯھونین بوئے رے گاڑی کاسیکو پیڅھیرو بیرائے۔
مطلب ہیہ کہ اسپہ رویان بو شوم عادت شیر کہ اسپہ راہا پھار نیسیکو بچین چوکوتین گوسی۔ حالانکہ جو قدم توری یا موڑی قدم لکھی آرامہ ای وݰکیاری راہا(سنگل روڈا) بی پھار نیسین بوئے۔ مگم موش چوکہ گیتی چھور وݰکی گاڑیان موژو اف راہی کوئے،بلکہ مرزائی کوئے کہ ریتام دی کیہ غلط نوبوئے۔ ہیہ لو حقیقت کی پیدل کوساکان خیالو لاکھیلیک۔ مگم ہیہ ہے پیدل کوساکو تان دی ذمہ داری کہ ہیس تان حفاظتو بچین دی تان دونیر۔

پیدل کوساکان مرزائی تان ژاغہ۔ مگم گاڑی کاسیاکان تان دی ای نخرہ شیر۔گاڑیو راہو موژا روپھئے ٹریفیک والو سوم مشقولگی کونی۔ موٹرو راہو موژا روپھئے مخالف سمتہ گیاک ای ڈرائیور ملگیرو سوم سیاسی بحث کونی۔ہموݰ کوروم ٹریفکو اصولاً تان نو بلکہ اخلاقی طورا دی جم جوݰونو نوبوئے۔

اسپہ رویہ، خُورو ای منٹو بچین دی برداشت نوکوسی مگم تان ہتے کورمو تان کہ اریتام ہتے بچین بیشر پونج جواز پیش کوسی ۔ریکو مطلب ہیہ کہ، مہ کیہ دی کوروم غلط نو، خورو کیہ دی کوروم غلط۔

زمانہ بدل ہوئے، ہے بچین دیتی اسپہ تان زندگی تیریکو طریقو بدل کوریلیک بوئے۔ وختو سوم جوستہ تان سورو بدل کوریلیک بوئے۔ ہروقت، ہر ژاغہ حکومتو نفری گیتی کوس ݯھیݯھیک نوبوئے۔ لودرونگار ہوئے۔ لو اوشوئے روڈا پھارنیسیکو گلائی۔

ای ذمہ دار شہریو حیثیتہ اسپہ جو اشناریان خیالو لکھیلیک بوئے۔ اولانو تان ژانو مالو وا جوؤ خورو ژانو اوچے مالو حفاظت۔ اسپہ تان موژی ہموݰ کہ خیال نو لکھیتام اسپہ تان دی پریشان بوسی وا خورو دی پریشان کوسی۔

اسپہ سفوسار پروشٹی ہیہ لوؤ ہوݰ کوریلیک بوئے کہ ای حادثہ بیکار اچی کا صحیح وا کا غلط رے فیصلہ کہ ہوئے دی ہتو فائدہ کیاغ بوئے۔ سین سیرو موڑو اف شوخڅیتائے۔کوریکو کہ ہے نقصان ژانو صورتہ بویانہ کہ نو مالو صورتہ ہے پریشانیو مدوا نوبوئے۔

راہو موژو گانی مشقولگی یا موٹرو راہو موژو کوسیک کیہ دی حسابہ سہی نو۔ کورا کہ کوساوا مشقولگیو یا ضروری لوؤ دیکو ضرورت کہ پوریتائے راہار پھوک نیشی نیسی یا فرخ ژاغہ بی تان لوؤ دین بوئے۔ لیکن مسئلہ صرف ہیہ شیر حالتو اوچے وقتو تقاضو ہوݰ کوریلیک۔

Zeal Policy

شندور میلہ

ݯھترارو قومی تروئے بسی شندور میلہ جولائیو مسو سوت تاریخاری گانی نیوف تاریخہ پت جاری بہچی پوروزیتائے ۔ ݯھترار استورغاڑوفائنلوگانیتائے۔ بات ختم پیسہ ہضم ۔ مگر شندور میلہ ݯھترارو ای روایتی میلہ بیکو سوم جوستہ اسپہ کا ہݰ دونیتامہ کہ ہیہ میلا ݯھترارو باریہ کندوری اشناری بیریرو رویان پروشٹہ نویوکو ہونی.ثقافت اوچے تہذیبو تمدنو بارا لو دومان۔ ہیہ تروئے بس بیریو روئے ݯھترارو باریہ کندوری معلومات، جم تاثر گانی باغانی کہ ہتیت تان ژاغین بوغاؤ کہ ہیمتان لوؤ پرانی ہیتان لوؤ کارکوری خور مینو سالوتین ہیہ میلہ شرکتو تین گونی۔ ہݰ کیہ لوؤ ہے رویانتین پتہ ہویا کہ ݯھترارو ثقافت کیاغ؟ ہیی روئے کیہ وار کونیان۔ ہیتان تہذیب اوچے تمدن کیچہ بیرائے رے۔ اگر کہ نو،تھے ہموتین ݯھترارو میلہ ریکو کیہ مقصد وا اسپہ ہیہ سوم خوشانی کھیوتین۔موڑی دیرو ہمی تصویران لوڑی تان ذہنہ دونور خٹک ڈانس، بیٹنی گروپ وزیرستانو پھوران ڑینگئَے پھوناک،اسکوٹو کھونگیر دیاک وا ایف سی پی ایس مستوجو جیوے پاکستان راک څیڅیق کیچہ ݰیلی کوری اسپہ کلچرو اوچے ثقافتو پروشٹی الیکو بچین کوروم کونیان۔ شندورا ہیتان ہے پھونیک نوبیروا روئے اسپہ کیہ ہوݰ کوریسینی۔ خاص کوری تھویک گانی پھونی ایھ بی یو دیتی ہمی روئے اسپہ ہوشا ر ارینی کہ تھویک موشو زیوار رے۔ اے بختو اساکان ہنیسے دی ہوݰ نو اریتامی ای کمہ سال ہݰ گوئے کہ اسپہ ہمی میزبانان اسپہ شندورہ داخلو بند کونی۔ ہیغین دیتی موڑی دیرو ہمی تصویران جم لوڑی تان ثقافتو ہیہ موژی مݰکی لاوار۔

Zeal Policy

جوڑوک میتاران

اوا پیپیلی، توجماعتی، ہیس ن لیگی، ہسے ق لیگ، اَف دُورو میکی جمیعت والا، وارزو دُورو لال نیشنلی۔غیچ نیشئیشینی، عقل بستہ بیتی  شیر۔ مہ دلیل مہ بچین حجت، خور کوس دلیل اوچے رایو مہ بچین ہِش کیہ اہمیت نِکی۔ ای کوروم مہ بچین جائز، مہ سوم جواز ٹیپ مگم ہے کورمو تو کی ارو بالکل ناجائز، کوریکوکی ہےکورمو تو کوسان۔ قومیت، علاقہ پرستی، پارٹی بازی، عصبیت، مسلکی وا مذہبی تعصب تان مفادا کی توریتائے ہمیت اسپہ جم ہتھیار مگم ہے قومی تعصب، مسلک پرستی، علاقہ پرستی خورو مفادا کی اوشوئے تان لوڑے وا۔ قرآن شریف، ملکی قانون ،انسانی حقوقو کتاب سف تہ پروشٹہ بیلنجین بونی کی ہیہ کوروم غلط ہمو نوکوریلیک۔ مطلب "میٹھا میٹھا ہپ ہپ  کڑوا کڑوا تھو تھو۔”

اسپہ ݯھتراری سف مہترانان نسل، کوس بپ بدخشانہ تختہ نیشی اسور، کوس بپ کابلو مئیر ،کوس بپو جاگیر تہرانہ شیر، کوس بپو سائبیریا  وا  کا ثمرقندو بخارو والیان۔ تتین سارئیر کی اسپہ کورا ݯھترارتو جو بسوتین کوساؤ گیتی اسوسی، اسپہ بپ گینیان کوڑ ہائی پونہ راہا نو ݯھوری شینی لہ۔ ہموݰ سوچو وا نسلو رویان راہان پیسہ دیتی ترکولان نیزیک پھاروشار، ہمیتان تان ݯاکئے ہمیتان دُوران اولیلیک۔ ویسے مہ بپ دی کوکیہ ژاغو میتار بوئے ہتو بشارو کوریلیک، وا اوا  اچی غیستی کھیوت بومان۔ بہچیتائے ݯھترارو راہان لُو، ہیت  ساؤز ہونی یانو ہونی اسپہ سورا کیہ فرق پاریران۔ رشٹو موڑتوبی، چار سوری دیتی یا موٹر ٹھور بیتی  بریک اسپہ بچین کیہ نوژان نو، ہیت سف اسپہ ثقافتو حصہ۔ اسپہ راہان بچین لُو دیتی تان ثقافتوتین نقصان تارئیکو  کیاوت دی کوششو  نوکوروسی۔

اگر آپ کھوار پڑھ نہیں سکتے تو کھوار سنیں۔ ویژویل آڈیو کو پلے کریں

پولو ایسوسی ایشن اور شندور

شندور میلہ 1929سے ہورہاہے۔90سالہ پرانامیلہ1989کے بعد سالانہ میلہ بن گیا۔سب سے شاندار میلہ1980ءمیں منعقد ہوا تھاجب اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے خود میلے کا افتتاح کیا۔اس کے بعد سربراہان حکومت اور سربراہان مملکت میلے کے آخری دن مہمان خصوصی کی حیثیت سےشرکت کرنے لگے۔جنرل ضیاء نے شندور کے میلے کو شندور پولو فیسٹول کا نام دیااور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے ساتھ چترال  کی ٹیموں کے ناک آوٹ مقابلوں کا اجراء کیا۔ شروع میں 3 ٹیمیں ہوتی تھیں۔ ہر ٹیم اپنا میچ الگ کھیلتی ہےاور ہر ٹیم کی الگ چیمپین شپ ہوتی ہے۔اب شندورمیں دونوں طرف5 ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ دونوں طرف سے پولو ایسوسی ایشن کے عہدیدار ٹیمیں تشکیل دیتے ہیں اور ایونٹ کو کامیاب بناتے ہیں۔ اس سال شندورپولو فیسٹول کے حوالے سےچترال پولو ایسوسی ایشن اور صوبائی حکومت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔صوبائی حکومت نے دو سالوں سے ہارس الاونس اور دیگر واجبات ادا نہیں کئے،ضلعی انتظامیہ سے پولو ایسوسی ایشن کو شکایت ہےکہ انتظامیہ نے صوبائی حکومت سے فنڈ کیوں نہیں لیا؟اس شکایت کی وجہ سےضلعی انتظامیہ نے پولو ایسوسی ایشن اور سیلیکشن کمیٹی کوبائی پاس کرکےٹیموں کا اعلان کیا۔پولو ایسوسی ایشن کے سربراہ کو ٹورنمنٹ سےنکال دیا۔ پولو ایسوسی ایشن نے مزاحمت اور احتجاج کا راستہ اختیار کیا ۔پولو فیسٹول کے لئے کھلاڑیوں کے گھوڑے 10 دن پہلے شندور پہنچائے جاتے تھے۔ گلگت کی ٹیموں کے گھوڑے شندور پہنچادیے گئے ۔چترال سےبھی چترال سکاوَٹس اور چترال لیویز کے گھوڑے شندور پہنچ گئے ۔ جبکہ پولو ایسوسی ایشن نے بائیکاٹ کیا ہو اتھا ۔  اگر  گھوڑے ایک دن یا دو دن پہلے شندور پہنچ گئےتو 12 ہزار فٹ کی بلندی  پر ماحول کے ساتھ مانوس (acclimatize)نہیں ہوتے ہیں اور گھوڑوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے ۔چترال کے عوام اور پولو کھیل سےدلچسپی رکھنے والے شایقین اس بات پر حیران ہیں کہ کمشنر ملاکنڈ،سیکرٹری ہوم اور سیکرٹری ٹوارزم نے اس تعطل کا فوری نوٹس کیوں نہیں لیا۔  26 جون سے 8 جولائی تک 8 دن کی تاخیرکیونکر ہوئی؟ پھر بھی شکر ہےکہ کمشنر ملاکنڈریاض خان محسوداور ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ کی کوششوں سے5 جولائی کو تعطل ختم ہوا۔ پھر بھی جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا،اس نقصان کا ازالہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب کمشنر ملاکنڈکی  ہدایت کے مطابق ایک غیر جانبدار گورننگ باڈی تشکیل دے کر گھوڑوں اور کھلاڑیوں کے انتخاب کا کام اس کے سپرد کیا جائےاور کپتان کے انتخاب کا اختیارکھلاڑیوں کی صوابدیدپر چھوڑ دیا جائے ۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

چترال کے نئے کھنڈارات

کھنڈارات کا لفظ عموما آثار قدیمہ اور ہزاروں سال پرانی عمارتوں یا مقبروں کے لئیے استعمال ہوتا ہے ،لیکن چترال میں جو کھنڈارات دریافت ہوئے ہیں،وہ بمشکل 6 سال پرانے ہیں ۔2013تک یہ کھنڈارات نہیں تھے، 2019ءمیں ایک دانشور کایہ قول سرکاری عمارتوں ، سڑکوں اور پلوں پر صادق آتا ہے جس میں دانشور نے کہا تھا "کھنڈارات سے پتا چلتا ہے عمارت نفیس تھی” آپ چترال میں دروش سے ریشن تک مرکزی سڑک کے دونوں اطراف دیکھیں، 100کلومیٹر کے اندر آپ کو بے شمارنئے کھنڈارات ملیں گے، ان کھنڈارات میں گرلزڈگری کالج دروش اور ریشن کا 4 میگاواٹ بجلی گھر نمایاں ہیں- ائرپورٹ روڈ، گورنر کاٹیج روڈ، بازار سے چھاؤنی جانے والی سڑک اور چترال بائی پاس روڈ بھی کھنڈارات میں شامل ہونے کے قابل ہیں۔ دروش چترال روڈ برباد ہو چکی ہے۔ چترال بونی روڈکھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔ 2012ءمیں تعمیر ہونے والایوتھ کمپلیکس بھوت بنگلہ بن چکا ہے۔ چترال کے لیے گذشتہ صوبائی حکومت کا واحد منصوبہ چترال سپورٹس سٹیڈیم تعمیراتی کام مکمل ہونے سے پہلےکھنڈارات میں تبدیل ہوچکاہے۔ شکر ہے اس وقت کے صوبائی حکومت نے چترال کو دوسرا کوئی منصوبہ نہیں دیا۔ ورنہ وہ بھی آثارقدیمہ میں شمار ہونےکےقابل ہوتا۔ 2012ء کے سیلاب سے متاثرہ گرین لشٹ اویر پل کے کھنڈارات بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2012ءمیں جوڈیشیل کمپلیکس ، جس عمارت پر جغور کے مرکزی مقام پر کام شروع ہوا تھا وہ بھی ادھوراچھوڑدیا گیاہے، گویا کھنڈارات میں ایک بڑی عمارت کا اضافہ ہوا ہے بدقسمتی کی حد یہ ہے کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام سےچترال کو کچھ نہیں ملا۔ صوبائی اے،ڈی،پی میں جو پیسے رکھے جاتےہیں، وہ سال گزرنے پر واپس کئے جاتے ہیں۔ ضلعی حکومتوں کو جو فنڈ دیا جاتا ہے ان کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ این جی اوز پر این او سی کی پابندی لگاکر باہر سے آنے والی امدادکے راستے بند کر دئیےگئےہیں۔ اور 6سالوں میں انصاف کے نام پر چترال کوبے انصافی کے ذریعےکھنڈارات میں تبدیل کیا گیا ہے۔

 

ٹاؤن کی سڑکیں یا کھنڈرات

ان صفحات میں بار بار چترال ٹاؤن کے اہم مسائل کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کروائی گئی ۔بعض مسائل حل بھی ہوئے مگر ٹاؤن کی ٹوٹتی پھوٹتی سڑکوں کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔چترال بازار سے چھاؤنی کی طرف جائیں ،افیسر میس اور ڈی سی ہاؤس کی طرف رخ کریں ،گورنر کاٹیج کی طرف جائیں ۔گرلز کالج کا راستہ لے لیں ،ائیر پورٹ روڈ پر گاڑی ڈال دیں یا چترال یونیورسٹی کی طرف رخت سفر باندھ لیں ۔

چترال ٹاؤں کی سڑک دوسری صدی قبل از مسیح کے کھنڈرات کا نقشہ پیش کرتی ہے ۔ان سڑکوں پر چترال بھر کی اسّی ہزار آبادی اور چترال بھر کی پانچ لاکھ آبادی ہی سفر نہیں کرتی ۔ہزاروں کی تعداد میں سیاح بھی انہی راستوں پر سفر کرتے ہیں بلکہ سفر کا انگریزی لفظ استعال کریں تو Suffer کرتے ہیں ۔ یہی نہیں ان سڑکوں پر ہمارا حکمران طبقہ بھی سفر کرتا ہے ۔ہر افسر اور ہر حاکم وقت کوچترال ٹاؤن کی کسی سڑک کی مرمت کا خیال نہیں آتا ۔چترال کے عوام کا یہ مطالبہ کوئی مانتا ہی نہیں کہ عوامی سہولت کے لیے سڑکوں کی مرمت کی جائے ۔اب عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے مغل شہزادے ،ہمارے مغرور افیسر اور تکبر کی علامت بننے والے حاکمانِ وقت اپنی گاڑیوں کےلیے ،اپنی سہولت کے لیے چترال ٹاؤن کی سڑکوں کو کھنڈرات سے قابل استعمال سڑک بنانے پر توجہ دیں ۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت "خزانہ خالی ” کی راگ آلاپتی ہے ۔صوبائی حکومت کے پاس فرصت نہیں ۔ضلعی حکومت کے پاس فنڈ نہیں ۔اگر یہی صورت حال رہی تو عوام مجبورا ً باہر نکلیں گے ۔سی اینڈ ڈبلیو کے دفتر کو تالا لگا دیں گے ۔ اس کے بعد شاید ہمارے حکمرانوں کو احساس ہوگا کہ چترال ٹاؤن کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔پاکستان سیٹیزن پورٹل اور صوبائی حکومت کے شکایات سیل پر کئی بار شکایات درج کی گئیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اب عوام چترال ٹاؤں کی سڑکوں کا مسئلہ بھی نیب ،اینٹی کرپشن اور احتساب کمیشن میں لے جانا چاہتی ہیں ۔ عوام کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اگلا حادثہ ان سڑکوں پر ہوا تو ذمہ دار افیسروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائیگی۔

ٹیوشن مافیا

ڈرگ مافیا ،ٹمبر مافیا اور بھتہ مافیا کے بعد ٹیوشن مافیا منظر عام پر آگیا ہے۔ سردی کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی چھوٹے بڑے  دیہات،چترال ،دروش ،بونی اور گرم چشمہ کی ہر قابل ذکر دیوار پر کسی نہ کسی ٹیوشن سنٹر کا اشتہار چسپان نظر آتا ہے ۔جن اساتذہ کرام نے دس ماہ سکول یا کالج میں طلباؤ طالبات کو کسی مضمون کی اے بی سی نہیں پڑھایا ،وہی  لوگ دو مہینوں میں سو فیصد نتائج دینے اور ملک و قوم کا نام روشن کرنے کا دعویٰ  کرتے ہیں ۔حد تو یہ ہے  کہ ایک  ایک ناکام ٹیچر کا  ناکام چار چار اشہتارات نظر آتا ہے ۔ استاد کی یہ "استاد ی ” سمجھ میں نہیں آتی کہ جو کام دس مہینوں میں وہ نہ کر سکے وہ کام دو مہینوں میں کس جادو کے زور پر وہ کرکے دکھائے گا۔

درحقیقت ہم میں سے ہر ایک کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ حکومت اپنے قوانین پر عمل در آمد کرانے میں سنجیدہ نہیں ۔استاد پڑھانے میں سنجیدہ نہیں ،طالب علم پڑھنے میں سنجیدہ نہیں ،والدین اسکول انتظامیہ کے ساتھ  رابطے میں سنجیدہ نہیں ۔اس لیے سال کے دس مہینے ضائع کرنے کے بعد  دو مہینے  کے ٹیوشن کو تمام  مسئلوں کا  حل تصور کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ٹیوشن کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ ہے اور اساتذہ کرام کا ایک مافیا اس مسئلے کو رو ز بروز ہوا دے رہا ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے حکومت اس مسئلے کی طرف توجہ دے۔دوسرے نمبر پہ اسکول انتظامیہ ،طلباؤطالبات اور والدین کو اس بات پر غور کرنا ہوگا  کہ جس استاد نے دس مہینوں میں ایک لفظ نہیں پڑھا یا ہے  وہ  استاد دو مہینوں  میں کیا تیر مارے گا ۔اس فریب اور دھوکے سے سب کو نجات حاصل کرنا ہوگا ۔محکمہ تعلیم اور ضلعی انتظامیہ کو بھی کردار ادا کرنا پڑے گا تاکہ اس نئے مافیا کا قلع قمع کیا جاسکے ۔

چترال کی سیاست میں تشدد کا عنصر

حالیہ انتخابی مہم کے دوران چترال میں پہلی دفعہ سیاسی نمائندوں اور  عوام کے رویے  میں تشدد کے عنصر کا پایا جانا چترال جیسے پر امن علاقے کے لیے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔ پُر تشدد رویے کے اظہار سے جہاں  سیاسی ناپختگی اور عدم برداشت کی موجودگی کا اظہار ہوتا ہے وہاں عوام کے رویے میں تشدد کا پایا جانا ایک مہذب معاشرے میں کسی  بھی طرح قابل قبول فعل نہیں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے معاشرے میں پنپنے والے اس نئے ناسور کی وجوہات معلوم کرکے جڑ پکڑنے سے پہلے  اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں  اور اپنے معاشرے کے مہذب اقدار کی تحفظ کو ہر صورت یقینی بنائیں ۔

ایسے رویوں کو تمام مفادات سے بالاتر ہوکر حوصلہ شکنی کرنی ہوگی ۔جس سے معاشرے میں تشدد کو فروغ مل رہا ہے اور اس قسم کے  رویوں کے لیے انفرادی طور پر کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فریقین کے رویوں کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے ۔سیاسی نمائندوں کے عدم برداشت کا رویہ جہاں قابل قبول نہیں وہاں دوسرے فریق کی طرف سے بار بار اکسانے کا رویہ بھی کوئی قابل ستائش عمل نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے رویوں کا سبب بننے والے افراد کی حوصلہ شکنی کو یقینی بنانا ہوگا ۔

چترال کے حساس پولنگ اسٹیشن

2018 کے قومی انتخابات کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہورہی ہیں ۔چترال وطن عزیز کا منفرد ضلع ہے ۔جہاں قومی اسمبلی کا بھی ایک حلقہ اور صوبائی اسمبلی کا بھی ایک ہی حلقہ ہے۔14850مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ضلع میں جہاں انتخابی مہم ایک چیلنج ہے وہاں پر امن انتخابات کے انتطامات بھی الیکشن کمیشن کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ۔افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی 600 کلو میٹر طویل سرحد کے دیہاتی مقامات اور چترال کی چار تحصیلوں میں امن و امان کے قیام اور پر امن انداز میں پولنگ کے لیے حساس مقامات میں خصوصی سیکیوریٹی کی صورت میں بہتر انتظامات ناگزیر ہیں۔ماضیٔ قریب کے واقعات سے بخوبی پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ چترال کو ایک طرف سے افغان طالبان اور داغش کے حملوں کا سامنا ہے ۔دوسری طرف سے تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں نے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر چترال کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ افغانستان کے اندر بھارتی قونصل خانوں کی طرف سے چترال کو ٹارگٹ بنایا جاتا رہا ہے۔خاص طور پر انتخابی مہم کے دوران فرقہ ورانہ تقسیم اور اس تقسیم کے حوالے سے بعض گروہوں کی طرف سے دی گئی دھمکیوں کی رپورٹیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں ۔اس لیے چترال کے طول و عرض میں حساس مقامات اور دہشت گردی کے خطرے کی زد میں آنے والے پولنگ اسٹیشنو ں کی تعداد سو سے اوپر بتائی گئی ہے۔ضلعی انتظامیہ ،پولیس اور سیکوریٹی سے وابستہ اداروں کے لیے چترال کے حساس مقامات کا تحفظ ایک بڑا چیلنج ہے۔اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لیے الیکشن کمیشن کو مختلف مکاتب فکر کے علماء کا تعاون حاصل کرکے انتخابی ضابطہ ٔ اخلاق کی پابندی کو یقینی بنانا چاہیئے ۔نیز ضلعی انتطامیہ ،ضلعی پولیس اور سیکیوریٹی سے وابستہ اداروں کو بھی قبل از وقت انتظامات اور پیش بندیوں کے ذریعے ناخوشگوار واقعات کا سدباب کرنا ہوگا تاکہ الیکشن کے دن اور اس کے بعد چترال کی پرامن فضا پر کوئی آنچ نہ آئے ۔