سیکولر زم کیا ہے؟

وہ اصول جو ریاست کو مذہب سے جدا کرتے ہیں، سیکولر زم کہلاتا ہے، سیکولر لاطینی زبا ن کے لفظ سیکولم (سیکولم) سے ماخوذ ہے جس کے معنی دنیا کے ہیں ۔سیکولرازم جدید مغربی اصطلا ح ہے جس کا مطلب ’’ایسا سیاسی اور سماجی نظام ہے جس کی بنیادیں مذہب اور مابعد الطبیعیاتی نظریات کی بجائے عقل اور سائنسی اصولوں پر رکھی گئی ہو‘‘۔۔
سیکولرازم ایک  مہذّب طرزِ معاشرت و نظامِ ریاست ہے۔ جِس میں ریاست لادین اور غیر جانبدار ہوتی ہے۔ اور ریاست کے باشندوں کے اپنے اپنے مذاہب و عقائد ہوتے ہیں، جِن پر وہ اپنی پوری مذہبی آزادی کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ سیکولرازم کوئی مذہب، عقیدہ یا فرقہ قطعی نہیں ہے۔متعّصب ، اور مذہبی تنگ نظر لوگ ، سیکولر کا ترجمہ لادین کرتے ہیں جو کہ قطعی غلط ہے، ریاست لادین ہوتی ہے، ریاست کے باشندے نہیں۔۔
ہمیں یہاں اس ہی بنیادی فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیکولر ازم کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہے ۔بلکہ ایک مہذّب و جدید نظامِ ریاست ہے، جس میں ریاست کا اپنا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتاہے۔ ریاست کے باشندوں کے مذاہب و عقائد ہوتے ہیں۔ جن سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ سیکولر ریاست ،مذہب کے معاملے میں مکمّل غیر جانبدار ہوتی ہے۔ سیکولر کا ترجمہ لادین کیا جاتا ہے۔ جو کہ ریاست کے معاملے میں تو صحیح ہے، مگر ریاست کے باشندوں کے معاملے میں غلط ہے۔ ایک سیکولر معاشرے میں ریاست لادین ہوتی ہے، مگر اس ریاست کے باشندے لادین نہیں ہوتے، اُنکا کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے ، جس کو سمجھنے اورسمجھانے کی ضرورت ہے۔
 چند  عناصر پاکستان میں ان جدید تصورات کی مسخ شدہ صورت پیش کرتے ہے، لیکن جب ہم  دیکھتے ہیں۔تو ہندوستان میں مولانا وحید الدین خان ، جماعت اسلامی اور درالعلوم دیوبند کے ذمہ دار ان ’’سیکولرازم ‘‘ کے نفاذ کی بات کر تے ہیں۔ اُور کہتے ہیں کہ ہندوستان کو ایک سیکولر رِیاست ہونا چاہیے۔دُوسری طرف پاکستان کی مذہبی تنظیمیں سیکولراز م کی محض اس لیئے مخالفت کرتے ہے کہ اگر انہوں نے پاکستان میں سیکولرازم کے نفاذکی وکالت شروع کر دی توان کا سیاسی و مذہبی کاروبار بند ہو جائے گا ۔
لیکن اللہ رب العلمین قرآن پاک کی سورہ الکافروں میں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و ا لہ وسلم  کو فرماتے ہیں۔ ۔
“کہہ دو اے کافروں ، نہ تومیں تمہارے معبودوں کی عبادت کرتا ہوں، اور نہ تم ہی میرے معبود کی عبادت کرتے ہو، اور نہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں گا، اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے، تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین“۔
مذہب اسلام خود ایک سیکولر طرزِ معاشرت کی حمایت کرتا ہے۔ سیکولرازم کا فلسفہ خود قرآن میں موجود ہے۔ جو مندرجہ بالاآیت مبارکہ سےسے واضح ہوتا ہے۔
 دنیا کا ہر مذہب قتل و غارت گری اور جنگ و جدل کا مخالف ہے۔ وہ انسانی معاشرے میں امن اور سکون کا داعی ہے لیکن عملی طور پر انسانوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے مذہب کے نام پر سب سے زیادہ انسانی خون بہایا ہے۔ ہر مذہب ، مذہبی رواداری ، تحمّل اور درگزر کا سبق دیتا ہے لیکن دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ تنگ نظری کا مظاہر ہ مذہب کے نام پر کیا گیا ۔ چاہے وہ دوسرے مذاہب کے مقابل ہو یا ایک ہی مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان مذہب کے نام پر مذہبی تعلیمات کا کھُلے عام مذاق محض اس لئے اڑایا جاتا رہا کہ ایسے افراد کو ریاست کی پشت پناہی حاصل رہی کیونکہ ریاست کسی نہ کسی مذہبی فرقے کے تابع رہی تھی۔ مذہبی اصولوں کے مطابق بھی برداشت انسانی کردار کی افضل ترین خصوصیّت ہے۔ جوانسان کو فرشتوں سے بھی اونچا درجہ عطا کر تی ہے کیونکہ یہ خدائی صفت ہے کہ وہ خالق ِ کائنات ہونے کے باوجود اپنے منکرین کو بھی دنیا کی ہر نعمت بخشتا ہے ۔ خدا کے نزدیک اس کے تمام بندے اس کا کنبہ ہیں اور اسے محبوب و پیارے
ہیں۔
لڑتے ہیں اختلاف عقائد پہ لوگ کیوں
ہے یہ تو اک معاملہ دل کا خدا کے ساتھ
اگر ہم لا دینیت اور سیکولر زم کا تقابلی جائیزہ لیتے ہیں ، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ لادینیت کے لیے انگریزی میں الگ سے ایک اصطلاح ’ایتھی ازم‘ کے نام سے  ہے۔ ایتھی ازم کا مطلب الحاد اور   اسے ماننے والا ملحد کہلاتا ہے۔ یعنی جس کا کوئی مذہبی نظریہ نہ ہو۔جبکہ سیکولر ازم کا مطلب ہے تمام عقائد کا یکساں انفرادی و اجتماعی احترام اور ان کے بارے میں ایک غیر جانبدارانہ مساوی ریاستی پالیسی۔ سیکولر نظریہ کثیر العقائد ریاستوں کا نظم و نسق چلانے کی ایک عملی تدبیر ہے جس کا مقصد ہے کہ کسی خاص مذہبی تشریح سے بچتے ہوئے سیاسی و اقتصادی معاملات بلا تعصب و جبر نمٹائے جائیں۔
سیکولر ریاست محض چند قوانین ، دستوری ضمانتوں اور اداروں کی تشکیل کا نام نہیں۔ سیکولرازم کی حقیقی روح مساوات، آزادی ، رواداری ، احترامِ علم اور تکثیریت پر مبنی فکری اسلوب کا نام ہے جسے معاشرے میں فروغ دئیے بغیر سیکولر ازم کی انتظامی ہیئت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ سیکولر معاشرے کی یہ انتظامی ہیئت چار بنیادی ستونوں پر استوار کی جاتی ہے۔ دستور،  ادارے ، پالیسیاں اور  قوانین ۔ ان چار اصولوں کو مستحکم کئے بغیر معاشرے میں چار بنیادی خواب پورے نہیں ہو سکتے یعنی مساوات، آزادی، تکثیریت اور رواداری ۔
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے