فکری خلا کا شوشہ۔کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ علوم وتحقیق کی دنیا میں کسی کو بھی حرف ِ آخر ہونے کا شرف حاصل نہیں اگر ایسا ہوتا تو دنیا بھی پیچھے رہتی اور اتنی ترقی فکری ومادی لحاظ سے کبھی دیکھنے کو نہ ملتی۔دراصل دنیا کی خوبصورتی بھی اسی فکری تنوع میں پنہاں ہے۔انسانی علم اور انسان کی فکری بساط کتنی ہے کیا وہ (انسان)قدرت کے ان تمام علوم وحقائق کا احاطہ کرنے کی وہ استعداد رکھتاہے جو صرف اللہ کے برگزیدہ بندوں (انبیاء) کی تخصیص رہی ہے؟یہ ایسے سوالات ہیں جو یقینًا کسی بھی نئے مفکر کے مطالعہ سے پہلے صاحب مطالعہ کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ان کا تشفی جواب پاکر ہی کسی بھی محقق کی آراء اور علمی کاوشوں سے بھرپور استفادہ کیا جاسکتاہے۔اسی تمہید کا سیدھا سادہ جواب تو یہی ہے کہ تمام علوم و اسرار کا مصدر اوّل تو اللہ کی ذات ہے۔وہ تمام علوم و دانش کا سمندر ہے اور تمام علوم اسی کی دسترس میں ہیں اور انسان اپنی عقلی و اکتسابی قوت کے ساتھ اس بچے کی سی حیثیت رکھتاہے جو سمندر کنارے سنگریزوں سے کھیلتاہو ۔ امت مسلمہ پر اللہ کا خصوصی کرم ہےکہ اللہ نے مسلمانوں میں علمی و فکری سوتے کبھی خشک نہ ہونے دئیے کبھی افراد کی صورت میں تو کبھی اسلامی تحریکات کی شکل میں۔مسلمانوں نے ترقی و تنزلی ہر دو طرح کے دور میں علمی روایت سے خود کو جوڑے رکھا۔یہاں پر یہ سوال ضرور اٹھتاہے کہ ان ادوار میں ان کی فکری نہج کیا رہی۔دنیا میں اسلام کے لیے سوالات کا جو محاذ کھولا گیا۔! کیا ہمارے ذرخیز اذہان ان کا تسلی بخش جواب دینے میں کامیاب رہے تو اس کا جواب یقینًااثبات میں ہے کہ انہوں نے تین علمی اصولوں(قرآن،سنت، اوراجتہاد)کے ذریعے ان مسائل کا درک بہم پہنچائے۔ملحدیں آج جو ذات باری تعالیٰ کے متعلق سوال اٹھاتے ہیں کیا یہ آج ہی کے سوال ہیں؟۔دین اور دنیا کی تفریق کا جو فلسفہ گھڑا گیا ہے کیا یہ آج کی پیداوار ہے؟کیا اسلام کی اساسیات پر جو رکیک حملے ہورہے ہیں کیا آج ہی سے متعلقہ ہیں یا اس کے ڈانڈے ماضی سے جاملتے ہیں۔اس کا جواب ہر ذی شعور انسان کو معلوم ہے کہ اسلام کے لیے یہ کوئی پہلی اور نئی آزمائش نہیں ہے یہ ماضی میں سر اٹھاتے رہے اور ان کے مقدر میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ اور لکھا ہی نہیں گیاہے۔یہ میرا دعوی نہیں اللہ کی سنت رہی ہےاور قرآن ببانگ دہل اللہ کا یہ دستور بیان فرما رہے ہیں کہ”ولن تجدا لسنت اللہ تبدیلا” تمہید لمبی باندھنے پر معذرت -آئیے میں اپنا مدعا آپ کے سامنے رکھتاہوں ۔تحریک اسلامی سے جڑے کچھ حضرات علمی وفکری آبیاری کے نام پہ ہر کسی سے خوشہ چینی کرنے کو جس طرح روا رکھے ہوئے ہیں۔ان کے رویوں کو دیکھ کر ایک سوال میرے ذہن میں اٹھ رہاہے کہ کیا عالمی اسلامی تحریکوں کے استاد اور فکری رہنماکہلانے والے سید ابوالاعلی مودودی  اور اس کے رفقاء تحریک اسلامی کی فکری تربیت کے معاملے میں کیا ایسے خلا چھوڑ گئے ہیں کہ اس کو پُر کرنے واسطے آج ہمیں ریشم میں ٹاٹ کے پیوند لگانے کی ضرورت پڑرہی ہے۔ کیا اتنی بڑی علمی تحریک اور ذرخیز لٹریچر رکھنے والی تحریک کے حاملین کا علمی معیار اس قدر نیچے آیاہے کہ ان کو اب ایسے لوگوں کی طرف دیکھنا پڑرہاہے جن کا یہ ازلی وطیرہ رہاہے کہ”چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی” کیا اسلامی تحریک کے حاملین فکری طور پر اس قدر یتیم ہوگئے ہیں کہ وہ اپنی فکری غذا کے لیے ان کا سہارہ لیں جن کی پوری فکری عمارت ٹیڑھی ہو۔ان سب کے باوجود سب سے پریشان کن سوال کیا تحریک اسلامی والوں کو اسلام پر منڈلاتے فکری خطرات کا ادراک بھی ہے یا نہیں؟کیا ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت دین کے کس طرح نئے ایڈیشن لائے جارہے ہیں؟ کیا ہم ان لوگوں کو پہچان رہے ہیں۔۔جن لوگوں کی پہچان مغرب سے حذر کرکے اسلام کا محاسبہ رہ گئی ہو۔مغرب جو بھی مارکیٹ میں پھینک دے اس پر ان کی رال ٹپکتی ہو۔جہاد کا وہ ایڈیشن جس کو مغرب ڈالروں کی بارش کرکے بھی قابل قبول نہ بنا سکا ہو مگر تجدد کے نام پہ یہ سارے مسموم اثرات مسلمانوں کے اذہان پہ انڈیلا جارہاہو ۔روایتی اسلام کوڈراؤنا بنا کے پیش کرکے اسلام کی اساسیات کو روندا جارہاہو۔ایک ایسی نسل سامنے لائی جارہی ہو جو ہر بات پہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر حملہ کرتی ہو۔خود کو قرآنسٹ باور کراکے مسلمانوں کو فکری انتشار کا شکار کرایا جارہاہو۔ان تمام کاوشوں کو عام کرنے کےلیے میڈیا کا دروازہ جن کےلیے وا کیا گیاہو۔ان کا لٹریچر عام کیا جارہاہو۔کیا وہ تحریک اسلامی کا ممدومعاون ثابت ہونگے۔فکر کر نادان۔تیری بربادیوں کے لیے جال بُنا گیاہے ۔صاحب تفہیم القرآن نے اس معاملے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے اس کےلیے اسلام ایک عشق تھا، سو اس نے اپنے عشق سےایسی وفاداری نبھائی ہے کہ اس کا عشق اس کے لٹریچر میں سر چڑھ کر بول رہاہے۔اس نے تحریک اسلامی میں کوئی بھی فکری خلا نہیں چھوڑا ہے ۔اس نے اسلام کے معاملے پر کسی سے کوئی مفاہمت نہیں برتی ہے اس نے چھانٹ چھانٹ کر ان تمام طبقات کا پول کھول دیا ہے جو مسلمانوں پہ مختلف فکری یلغار کئے ہوئے تھے ۔۔بس مطالعہ شرط ہے۔جو مطالعہ نہیں کرتے وہ پھر اس طرح تحریک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔  نائن الیون کے بعد اسلام پر جتنی بھی آزمائشیں آئی ہیں۔احباب یقین جانئے ہمارا یہ دور  اِن سب سے کڑا دور ہے کیونکہ اب فکری یلغار کےلیے خود مسلمان ہی کرائے کے سپاہی بنے بیٹھے ہیں۔ اس کا توڑ کیا ہے؟اسلامی تحریکات کیا ایسا کوئی لائحہ عمل تیار کرچکی ہیں جس سے امت مسلمہ کو اس باد سموم سے محفوظ ومامون کیا جاسکے؟امت مسلمہ کے ذرخیز اذہان کو اس باد صرصر کے اثرات سے بچایا جا سکے۔؟معذرت کے ساتھ میرے علم میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔یاد رکھیں اس طرح کی کاوش تحریک اسلامی پر قرض ہے۔خدارا اس قرض کو چکانے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کیجئے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے