شاعروں اور ادیبوں کے بغیر معاشرہ نامکمل ہے

ادیب اور شاعر لوگ معاشرے کا اہم حصہ ہیں. جن معاشروں میں ادیب اور شاعر نہیں ہیں وہ معاشرے مکمل معاشرے نہیں کہلاتے. معاشرے کے سبھی افراد اپنے اپنے مفاد کی خاطر اور اپنے اپنے غرض کی خاطر سوچتے ہیں. لیکن شاعر وادیب صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی سوچتے ہیں. وہ معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں پر گہرا نظر رکھتے ہیں. ان کی قوت حس بہت تیز ہوتی ہے. اور وہ ہر چیز اور ہر بات کو دوسروں کی بنسبت زیادہ محسوس کرتے ہیں.

ان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ معاشرے میں بسنے والے تمام افراد اچھے کردار کے مالک بن جائیں، ہر ایک کو ان کے حقوق مل جائیں، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ہو جائے، اور زندگی کی اصل حقیقت سےآگاہی حاصل کی جائے. یہ اور چند دوسرے مثبت تمنائیں ان کی تمناؤں کا حصہ بن جاتے ہیں اپنے ان تمناؤں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے وہ اپنے دل و دماغ کو استعمال میں لاتے ہیں. تخیلات کی دنیا میں کھو جاتے ہیں اور کچھ سوغات چن کر دنیا والوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں. وہ سلیس نثری زبان میں بھی اپنے پیغام لکھ دیتے ہیں اور فصیح شعری اسلوب میں بھی. یہی ان کا معمول ہے. ان کی باتوں میں کمال کی تاثیر ہے، کیونکہ ان کی ہر بات بجائے خود ایک تفسیر ہے.ایک ادیب کبھی نثری زبان استعمال کرتا ہے اور کبھی شاعر بن کر شعر کے انداز میں اپنا مدعا بیان کرتا ہے. یہ ہر ادیب و شاعر کی خصلت ہے، نہ صرف خصلت بلکہ ان کی صفت ہے. یہ انوکھا انداز بیان ہے، اور اسی بیان میں ان کی اصل پہچان ہے. کئ ادیب اور کئ شاعر گزرے ہیں، اور اپنے نقوش چھوڑ کر دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں. ان کے یہ نقوش ہمیشہ ان ہستیوں کی یاد دلاتے رہتے ہیں.

مولانا محمد حسین آزاد ایک عظیم ادیب گزرے ہیں. اپنے ایک تحریر میں یوں رقمطراز ہیں.
"ایک حکیم کا قول ہے کہ زندگی ایک میلہ ہے. اس عالم میں جو رنگارنگ  حالتیں ہم پر گزرتی ہیں، یہی اس کے تماشے ہیں. لڑکپن کے عالم کو پیچھا چھوڑ کر آگے بڑھے نوجوان ہوئے اور پھر پختہ سال انسان ہونے. اس سے بڑھ کر بڑھاپا دیکھا اور حق پوچھو تو تمام عمر انسانی کا عطر وہی ہے.” جب اس فقرے پر غور کیا اور آدمی کی ادلتی بدلتی حالت کا تصور کیا تو مجھے انواع واقسام کے خیال گزرے. آول تو وقت بےوقت اس کی ضرورتوں اور حاجتوں کا بدلنا ہے کہ ہر دم  ادنیٰ چیز کا محتاج ہے. پھر اس کی طبیعت کا رنگ پلٹتا ہے کبھی ایک چیز کا طلبگار ہوتا ہے کبھی اس سے بیزار ہو تا ہے. اور جو اس سے بر خلاف ہے اس کا عاشق زار ہوتا ہے. پھر غفلت ہے کہ وقت کے دریا میں تیراتی پرتی ہے. لطف یہ ہے سب خرابیاں دیکھتا ہے اور چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ہے. ایک اضطراب اور تیزی کا عالم ہے، یہی تیزی اب ہر چیز پر مقدم ہے. بتانا چاہو بھی تو کس کو بتاوگے، چھپانا چاہو بھی تو کیسے چھپا وگے؟ سب کچھ نظروں کے سامنے ہو رہا ہے اور انسان سر عام اپنا قدر کھو رہا ہے. اوپر والا دیکھ رہا ہے، اس کے باوجود بھی نظام چل رہا ہے. یہ نظام کب تک چلے گا اور نفرت وغرور کی آگ میں انسان کب تک جلے گا. ایک معین مدت ہے، بعد اس مدت کے بہت شدت ہے. کسی نے کچھ سوچا بھی ہے اور اپنے آپ سے کچھ پوچھا بھی ہے؟

ان باتوں کا احساس شاید سبھی لوگوں کو ہو لیکن محسوس کرکے دوسروں تک پہنچانا ادیبوں اور شاعروں کا کام ہے. یہ میرے تفکرات تھے، آپ کے تفکرات کچھ اور ہوں گے. البتہ یہ تحریر پڑھ کر آپ .کو ضرور اندازہ ہوا ہوگا کہ شاعر وادیب واقعی معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی سوچتےہیں یہ حقیقت ہم سے بارآوارکراتا ہے کہ ہاں ادیبوں اور شاعروں کے بغیر معاشرہ نامکمل ہے۔

Print Friendly, PDF & Email