پاکستان کے دو مثالی وزرائے اعظم

چودھری محمد علی

گورنر جنرل غلام محمد کی سبکدوشی کے بعد میجر جنرل سکندرمرزا اگست ۱۹۵۵ میں پاکستان کے گورنر جنرل بنے ۔پانچ روز بعد ۱۱-اگست ۱۹۵۵ کو مسلملیگ اور یونائیڈفرنٹ کی کولیشن سے چودھری محمد علی نے وزارت اعظمیٰ کا حلف اٹھایا۔شیر بنگال مولوی اے-کے فضل حق ان کی کابینہ میں وزیر داخلہ تھے ۔وزیر اعظم کے طورپر چودھری فضل حق کا سب سے بڑا کارنامہ ۱۹۵۶ کے آئین کا نفاذ تھا ۔پچھلے نو برسمیں خان لیاقت علی خان سے اب تک کسی وزیر اعظم نے آئین سازی کے کام کو آگے نہیںبڑھایا تھا ۔چودھری محمد علی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی پانچ ماہ کے اندرآئین کا مسودہ شائع کردیا جب یہ مسودہ آئین ساز اسمبلی کے سامنے  پیش ہوا تو اس کی  ۲۴۵دفعات کے لیے ۶۷۰ ترامیم پیش آئیں ۔خاص طور پر مشرقی پاکستان میں

بڑا طوفان اُٹھا۔جلوس نکلے اور ہڑتالیں ہوئیں ۔مولوی اے-کے فضل حق نے بڑی سخت تقریریں کیں۔

مولانا بھاشانی نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے تک کی دھمکی دی۔عوامی لیگ کے ایک لیڈر ابومنصور نے یوں کہا کہ مشرقی پاکستان  اور مغربی پاکستان کے لوگوں کا ایک مذہب مشترکہ ہے باقی کوئی چیز مشترک نہیں ۔ دونوں الگ الگ قومیں ہیں۔مسٹر سہروردی نے  آئین کی مخالفت کی ۔آئین کے خلاف اس تمام محاذآرائی  ،مخالفت اور مخاصمت کا سامنا چودھری محمد علی نے بڑے صبرو تحمل، بردبار ی اور مدبرانہ دانشمندی سے کیا ان کی کوششیں بارآورثابت ہوئیں اور ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ ہوکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔نئے آئین کے تحت چودھری محمد علی نے وزیر اعظم کے طورپر حلف اٹھایا اور میجر جنرل اسکندر مرزا ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے  لیکن ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ نئے آئین  کو صدر پاکستان سکندر مرزا کی صدرات میں چلاناویسا ہی تھا جیسے دودھ کو بلی کی رکھوالی میں رکھنا ۔سکندر مرزا جوڑ توڑ کے بادشاہ تھے۔صدر کے طور پر آئینی بندشوں اور پابندیوں میں مقید ہوکے رہنا ان کے لیے ناممکن تھا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بہت جلدمغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کی دستگیری کے لیے ریپبلکن پارٹی کی داغ بیل ڈالی  ۔ا س میں مغربی پاکستان  کے گورنر مشتاق گھورمانی بھی برابر کے شریک تھے۔پارٹی کا منشور اور آئین بھی انہوں نے مرتب کیا تھا ۔ ری پبلیکن پارٹی کے بنتے ہی صدر سکندر مرزا کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی آگئی جسے گھما کر وہ سیاست میں جب چاہتےاپنی پسند کی تبدیلی لے آتے ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ چودھری محمد علی جیسے با اصول شخصیت ان کے ساتھ نہ نبھا سکے اور آئین نافذ ہونے کے ۱۳ ماہ بعد چودھری محمد علی وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

آپ دیانت داری ،امانت داری اور منصف مزاجی کا اعلیٰ نمونہ تھے ۔سبکدوشی کے بعد بھی انتہائی صبر اور خاموشی  سے زندگی گزارتے رہے ۔ایک بار انہیں علاج کے لیےبیرون ملک جانا ضروری ہوگیا ۔لیکن وسائل کی کمی آڑے آئی ،سکندر مرزا خود اس کےگھر جا کر سرکاری امداد پر انہیں بیرون ملک لے جانے کی پیشکش کی ۔لیکن وہ کسی طرح بھی مائل نہیں ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ وزارت عظمی ٰ کے دوران    میں نے اپنا حق لے لیا ہے اب میں مزید حکومت پربوجھ نہیں بن سکتا ۔

لیکن اسکندر مرزا کے اصرار پر انہوں نے قرضِ حسنہ لینے پر آمادگی ظاہر کردی ۔جسے واپس آنے پر بہت کم عرصے میں قسطوں کی شکل میں واپس کر دیئے ۔سوچنے کا مقام ہے کہ آج کے ہمارے ارباب اقتدار اور ان میں کتنا فاصلہ ہے ۔

ملک معراج  خالد

ملک معراج  خالد پنجاب کے بہت ہی غریب گھرانے  سے تعلق رکھتے تھے ۔اپنی طالب علمی کے زمانے میں لوگوں کے دودھ اجرت پر شہروں میں لے جا کر فروخت کرکے  اپنی تعلیم جاری رکھی ۔یہاں تک کہ ننگے پاؤں بھی سکول جاتے تھے ، کالج لیول تک پہنچ کر اور بھی محنت شاقہ سے اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ پہلے چھوٹے لیول پر کونسلر منتخب ہوئے پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر ایوان تک جاپہنچے   اور اسپیکر کے عہدے تک پہنچے ۔

نواز شریف اور بے نظیر کی رسہ کشیوں کے دوران نومبر ۱۹۹۶ سےفروری ۱۹۹۷ تک انہیں نگراں وزیر اعظم بنایا گیا ۔ مجھے ان کی تقریر کا ایک جملہ اببھی یاد ہے ۔ میں آیا نہیں ہوں لایا گیا ہوں ۔ ۔ اس بعد گمنامی میں زندگی گزارتےرہے ۔ جون  ۲۰۰۳ میں جب آپ اس دنیا سےانتقال کر گئے تو ان کا جنازہ کرائے کے مکان سے لے جایا گیا ۔ ۔آج ہمارے معاشرےمیں ایک کونسلر بھی کرائے کے مکان میں نہیں رہتا ۔اس سے  اس درویش صفت وزیر اعظم کی زندگی کی مکمل عکاسیہوتی ہے ۔ کہ وزارتِ عظمیٰتک پہنچنے والا یہ شخص اپنے لیے کیا کچھ اثاثہ جمع کیا تھا۔

Zeal Policy
Print Friendly, PDF & Email