سوال کی اہمیت

کہا جاتا ہے کہ ایک بار حسن بصری کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جس کے ہاتھ میں جلتا ہوا چراغ تھا۔ حسن نے بچے سے پوچھا کہ اس کے ہاتھ میں موجود چراغ کی روشنی کہاں سے آئی؟ بچے نے فوراً چراغ بجھایا اور حسن سے کہا "اب آپ بتائیں کہ روشنی گئی کہاں”؟

تلاشِ حق و حقیقت میں سوال ہمیشہ معنی خیز یا پھر جواب کے لئے نہیں ہوتا۔ بعض اوقات سوال اپنے آپ میں ہی جواب ہوتا ہے یا جواب کسی دوسرے سوال میں موجود ہوتا ہے۔ ہر سوال کا جواب ہونا بھی ضروری نہیں ہے جیسے اس سوال کا کہ انڈہ پہلے آیا یا مرغی پہلے آئی ، جو کہ اکثر لاجواب کرنے کے لئے پوچھا جاتا ہے۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کئی بار ہماری گہرے حقائق کی تلاش کو ہمارے سوالات دھندلا کر دیتی ہیں۔ سوالات جیسا کہ "کیا یہ واقعی ہے ، یا کیا یہ واقعی سچ ہے”؟

نیپولین بوناپارٹ نے بھی کہا تھا کہ "کیوں” اور "کیسے” اتنے اہم الفاظ ہیں کہ اکثر استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ مطلب ہر سوال ہر موقع پر صحیح نہیں بیٹھتا۔ سوال کرنا بھی ایک فن ہے ، جو کسی بھی دوسرے فن کی طرح علم ، مشق اور تیاری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ صحیح سوال ہی صحیح جواب کی راہ ہموار کرتی ہے۔ حسن بصری کے واقعے سے یہ بات بھی نکل کر سامنے آتی ہے کہ ہمیں اپنی بصیرت کو وسعت دینے کے لئے پہلے فکر کو پھر سوال کو موقع دینے کی ضرورت ہے اور سوال بھی صاحبِ علم سے کرنی چاہئے۔ اسی اسلوب پر قرآن میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

    ترجمہ:

    "اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو”

المیہ یہ ہے کہ آج کل سوال اور سوال کرنے کو بہت ہلکا لیا جاتا ہے حالانکہ علم والے کہتے ہیں کہ صحیح سوال آدھی دانائی ہوتی ہے اور اچھا سوال آدھا جواب ہوتا ہے۔ تجسس کی کوئی حد نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سوال کرنا بند کردیا جائے۔ سوال پوچھتے رہنا چاہئے اگر مقصد جواب پانا ہو ، اگر نہیں تو سوال برائے سوال محض ذہنی خلل ہے۔ مطلب اور مقصد کی تلاش انسان کے اندر فطری طور پر ودیعت کی گئ ہے اور اس خاصیت کے وجود سے انکار بالکل نہیں کیا جا سکتا تاہم اس کو صحیح موڑ دینا اور صحیح راستے پہ ڈالنا غیر فطری جہد کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر جواب مقصود ہو اور جواب مل بھی جائے تو سوال کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، اور اگر جواب اپیل کرے تو اطمینان کی بنیاد بن جاتی ہے۔ اس سے حصولِ علم و حکمت کی راہ ہموار ہوتی ہے اور سمجھ بوجھ کو یقینی بنانے کے لئے سوال کا سہارا لینا ناگزیر ہے۔

رڈیارڈ کپلنگ نے اپنے ایک نظم میں کیا خوب کہا ہے جسکا سلیس ترجمہ کچھ یوں ہے۔

"میرے پاس چھ دیانتدار خدمت گار ہیں جنہوں نے مجھے وہ سب کچھ سکھایا ہے جو میں جانتا ہوں۔ ان کے نام یہ ہیں کیا، کیوں، کب، کیسے، کہاں اور کون”۔

Print Friendly, PDF & Email