تنوع اور تحمل

روئے زمین پر موجود انسان انفرادیت، معاشرت، مذہب اور فطرت کے اعتبار سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ہماری سوچ، ہمارے افکار، ہماری دنیا کو دیکھنے کا انداز اور نظریہ، ہمارا رہن سہن، ہمارے طور طریقے اور ہمارے عقائد ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہیں۔ اس طرح کا مخلوط ماحول صبر و تحمل اور برداشت سے متعلق کئی الجھنوں کا سبب بن رہی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو سننے اور تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور عدم برداشت کا یہ عنصر ہمارے ایک دوسرے کے قریب آنے کی راہ میں حائل ہے۔

معاشرتی سطح پر ہم ابھی تک برداشت کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ہیں۔ برداشت تو تب کی جاتی ہے جب کوئی چیز اچھی نہ لگے۔ ہمیں تو مشترکہ خوبیاں اور اچھائیاں ڈھونڈنی چاہیے۔ اپنے اندر مثبت رجحانات کو فروغ دینا چاہئے اور ہمیشہ انسانیت میں تنوع کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ یہی تنوع ہے، یہی خوبصورتی ہے۔ یہی نظام کا دریا جس میں سب بہہ رہے ہیں ہمارے وجود کو سیراب کرتا ہے، ہمیں انوکھا اور الگ بناتا ہے۔ ہم سب ایک جیسے ہوئے تو ہم سب روبوٹ ہیں ، پروگرام کیے ہوئے روبوٹ۔

ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ اگر کوئی مجھے پسند نہ آئے تو مجھے اسے اور جاننے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس ہماری سوچ یہ ہے کہ اگر کوئی مجھے پسند نہ آئے تو مجھے اسے بالکل بھی جاننے کی ضرورت نہیں۔ تنوع سے ہٹ کے اگر ہمیں کسی میں برائی نظر آئے تو پیچھا چھڑانے سے اس کا سد باب نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ مسئلہ لوگوں سے نہیں بلکہ برائیوں سے ہونا چاہئے اور برائی کو نظر انداز کرنا بھی اسے بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔
انسانی کاملیت کے لئے ہمیں ایک دوسرے سے اختلاف کو نفرت کا سبب بننے نہیں دینا چاہئے بلکہ اسے ایک دوسرے کے جدا گانہ وجود کو تسلیم کرنے کا ماخذ بنانا چاہئے۔

سقراط نے کہا تھا کہ حقیقی اہمیت محض وجود میں نہیں بلکہ کامل وجود کے تعاقب اور حصول میں ہے۔ اسی کامل وجودِ انسانی کو ماپنے کا سب سے بہترین الہ انسان دوستی اور شعوری طور پر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سہنے اور برداشت کرنے سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ کائنات کی خوبصورتی میں تنوع کی حصہ داری کو پہچان سکیں اور اس تنوع کا تحمل کے رویئے کے ساتھ خیر مقدم کر سکیں۔

 

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email